یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب تمام خاندان اکٹھے رہا کرتے تھے اور جب خواتین گھر کے کام کرتی تھیں اور ساتھ ہی کھیتوں میں لوگ ہل چلایا کرتے تھے تو یہ ان کا کھانا وہاںدے کر آتی تھیں اور پھر تھک کر درختوں کے نیچے اپنے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر سو جاتی تھیں یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے۔
عائشہ اور زہرہ دیورانی ‘ جٹھانی تھیں۔ عائشہ کے ایک بیٹا تھا اور زہرہ کے ایک بیٹی تھی‘ اکٹھے رہتے بچوں کا بچپن بیتا اور جوان ہو گئے۔ زہرہ کے شوہر بہت نیک فطرت انسان تھے۔ وہ اپنی بیٹی ماریہ کی شادی اپنے بڑے بھائی کے گھر کرنا چاہتے تھے۔ جب زہرہ کو اپنے شوہر کے ارادے کا علم ہوا تو بہت پریشان ہوئی کیونکہ زہرہ عائشہ کے بیٹے سے اپنی بیٹی کا کسی صورت رشتہ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن شوہر کے سامنے انکار کی بھی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ ان کے شوہر کسی صورت بھی اپنی بیوی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھے کیونکہ عائشہ کا بیٹا بہت نیک فطرت انسان تھا۔ زہرہ کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کہ کس طرح اپنے شوہر کو منع کرے کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں ہونے دونگی۔ کئی دن سوچنے کے بعد زہرہ کے ذہن میں شاطرانہ ترکیب آئی‘ اپنے شوہر کی تابعداری کرتے ہوئے ایک شب موقعہ مل گیا اور ہاتھ جوڑ کے اپنے شوہر سے عرض کیا‘ مجھے تو بہت خوشی تھی‘ جو رشتہ کرنے کا ارادہ کیا ہے‘ اس طرح میری بیٹی بھی میرے پاس رہتی لیکن سرتاج آپ سے ایک بات کہنا بہت ضروری ہے‘ بچپن میں جب ہم دوپہر کو سویا کرتے تھے ‘ چارپائیاں جوڑ لیتے تھے کہ بچے گر نہ جائیں یوں ایک دوپہر ہم سو رہے تھے تو عائشہ کے بیٹے نے میری بریسٹ فیڈ لے لی اور میری بیٹی نے عائشہ کی ۔ اب تو یہ دودھ شریک بہن بھائی ہیں‘ نکاح تو نہیں ہو سکتا۔ اور یہ جر م میں کر بھی نہیں سکتی ورنہ تو میری بھی یہی خواہش تھی ‘ مجھے بھی یہ رشتہ بے حد پسند تھا۔
یوں یہ رشتہ بغیر کسی جھگڑے کے ختم ہو گیا‘ زہرہ کی مکاری نے کوئی راستہ ہی نہ چھوڑا تھا۔ در اصل زہرہ اپنی بیٹی کا رشتہ اپنی بہن کے دیور سے کرنا چاہتی تھی ۔ بہن کا دیور انگلینڈ میں تھا ‘ زہرہ نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے شوہر سے کیا اور پھر اپنی بیٹی کا رشتہ اپنی بہن کے دیور سے کر دیا جس کا نام صدیق تھا۔ یوں زہرہ کی بیٹی کی شادی صدیق سے ہو گئی اور شادی کے کچھ عرصے بعد ماریہ بھی انگلینڈ چلی گئی۔ اب عائشہ کے بیٹے کی شادی ہونی تھی۔ زہرہ نے پھر اپنی عیاریوں سے اپنے شوہر سے کہہ کر عائشہ کے بیٹے کا رشتہ اپنی بھتیجی سے کر دیا۔ (اپنے بھائی کی بیٹی سے)یوں وہ اپنے دیور کے گھر اپنے بھائی کی بیٹی لے آئیں اور زہرہ خوشی سے بے حال تھی ۔ اپنی بیٹی دیورانی کے گھر نہیں دی اور اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنی مرضی سے دیورانی کے بیٹے سے بیاہ دیا۔
انگلینڈ جانے کے کچھ عرصے بعد ماریہ کے ایک بیٹی ہوئی جو گونگی اور بہری تھی ‘ پھردسری بیٹی ہوئی وہ بھی گونگی بہری تھی‘ پھر ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہوئیں وہ نارمل تھیں۔ پھر زہرہ کی بھتیجی کے بیٹا پیدا ہوا وہ ابنارمل تھا‘ پھر دو بیٹیاں ہوئیں ‘ سب بچوں کا بچپن اور جوانی گزرا۔ اب ماریہ کو اپنے بیٹے کی شادی کرنی تھی تو اس نے بھی انتخاب کیا کہ اپنی امی کی بھتیجی کی بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے سے لے گی۔ یوں اسے پاکستان سے کرن کو اپنے پاس یو۔کے بلا لیا اور اپنے بیٹے سے نکاح کر دیا۔ صرف دو ماہ بعد ماریہ کے بیٹے نے کرن کو طلاق نامہ دے کر واپس پاکستان بھیج دیا اور خود کینیڈا چلا گیا اور یہودی لڑکی سے شادی کر لی۔ ماریہ کی ماموں زاد بہن (کرن کی امی) نے ہمیشہ کیلئے اپنی پھوپھی اور پھوپھی زاد بہن سے ناطہ توڑ لیا۔ ماریہ روتی ہے اس کی گونگی بہری بچیوں سے کوئی شادی کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی ماں کو کوستی ہے‘ بیٹا ہمیشہ کیلئے ماں کو چھوڑ کر کینیڈا چلا گیا‘شوہر ‘ شوگر‘ کینسر کا مریض ہے‘ زہرہ خود بستر مرگ پہ تنہا زندگی کے دن کاٹ رہی ہے‘ بستر پہ ہی پیشاب پاخانہ ہوتا ہے‘بیٹی پرائے دیس ہے‘ بھتیجی نے ناطہ توڑ لیا‘ چار سال بستر مرگ پہ گزارنے کے بعد آخر زہرہ ایک دن جانے کس وقت ابدی گھر کو سدھار گئی۔ زہرہ کے شوہر بہت پہلے وفات پا گئے تھے۔
ظلم کا انجام
میں جو واقعہ بیان کر رہا ہوں وہ میری آنکھوں دیکھا ہوا ہے اور بالکل سچا ہے جو ہمارے محلے کی ایک عورت کو پیش آیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے گاﺅں میں ایک عورت رہتی تھی۔ جس کے دو بیٹے تھے۔ ایک دن اس کے بڑے بیٹے نے ماں سے فرمائش کی آج ابلی ہوئی سویاں کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ ماں نے جونہی اپنے بیٹے کی فرمائش سنی جھٹ برتن میں پانی ڈال کر اسے چولہے پر ابلنے کیلئے رکھ دیا۔ اسی گھر میں ایک کتیا رہتی تھی جس کے دو چھوٹے چھوٹے پلے بھی تھے۔ کتیا نے ان کو اسی گھر میں جنم دیا تھا۔ مگر عورت کو ان پلوں سے بہت چڑ تھی۔ حالانکہ وہ صحن کے ایک کونے میں پڑے رہتے تھے اور گھر کی کسی چیز کو بھی خراب نہیں کرتے تھے۔ بہر حال عورت نے گرم کھولتے ہوئے پانی سے سویاں نکال کر ان پر چینی ڈال کر اپنے بچوں کو دیں۔ جب عورت اپنے بیٹے کو سویاں دے رہی تھی اتفاق سے وہی کتیا اسی وقت وہاں سے گزری ۔ اس کا رخ اپنے بچوں کی طرف تھا۔ اسی دوران عورت کے ذہن میں شیطانی سوچ ابھری اس نے گرم کھولتے ہوئے پانی کی دیگچی کتیا پر انڈیل دی۔ کتیا ساری رات تکلیف کی وجہ سے درد ناک آوازیں نکالتی رہی۔ صبح کو عورت اور گھر کے سب افراد نے دیکھا کتیا کے جسم پر بڑے بڑے چھالے تھے اور وہ مر چکی تھی۔
دوسرے دن اس کے پلے بھی ماں کے بغیر چیخ چیخ کر مر گئے۔ محلے کی کچھ بزرگ خواتین نے اس عورت کو نصیحت کی کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہر حال اب تم اللہ سے تو بہ کر لو۔ مگر عورت نے حقارت سے کہا۔ اس حقیر کتیا کی خاطر اللہ مجھے کیونکر عذاب دے گا۔ کچھ دن بعد بڑے بیٹے کو بخار ہوا اور وہ دو دن کے اندر مر گیا ‘ ابھی اس کا زخم مندمل نہیں ہوا تھا کہ اس کا دوسر ابیٹا بھی دوسرے ہفتے مر گیا۔ دو بیٹوں کی المناک موت کے بعد بھی اس عورت کو کتیا کا واقعہ یاد نہ آیا اور نہ اس نے توبہ کی۔ کچھ دن بعد اس عور ت کے پورے جسم پر کتیا کی طرح چھالے پڑ گئے اور پھر ان میں کیڑے بھی پڑ گئے۔
اس نے اپنی تمام جائیداد اور زیور بیچ کر اپنا علاج کرایا ہر ڈاکٹر کو دکھایا مگر بے سود ۔ اب یہی عورت ہر ایک کو جانوروں کے ساتھ رحم کی نصیحت کرتی ہے اور اللہ سے توبہ کرتی ہے اورہر آنے جانے والے سے کہتی ہے کہ وہ جانوروں پر ظلم نہ کریں کیونکہ اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” تم زمین والوں پر رحم کرو میں تم پر رحم کروں گا“۔ (شہزاد علی‘ لیہ)
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 180
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں