یہ واقعہ ہمیں ایک تاجر شیخ سلیم نے سنایا جو اب لاہور کی ایک الیکٹرونکس مارکیٹ میں ایک بڑے کاروباری شخص ہیں۔ شیخ سلیم کی عمر اس وقت 55 سال کے قریب ہے وہ بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ آج سے 45 سال قبل کا ہے۔ اس وقت وہ چشتیاں میں اسکول کے طالب علم تھے۔ وہ شروع ہی سے انتہائی شرارتی تھے جس کے باعث ان کے والدین اور اساتذہ سے اچھی خاصی ٹھکائی ہوتی ۔مار پڑنے پر سلیم کبھی کبھار گھر سے بھی بھاگ جاتا اور سارا سارا دن گلیوں‘ بازاروں‘ مزاروں اور کھیتوں میں گھومتا پھرتا رہتا‘ رات کو جب تھک ہار کر گھر آتا تو پھر ماں سے ڈانٹ اور باپ سے مار پڑتی۔ آخر ایک دن باپ نے بہت پیار سے سمجھایا‘ بظاہر سلیم نے فرمانبرداری کا اظہار کیا مگر دل میں شرارتوں کے جو بلبلے پھوٹتے تھے وہ کب ٹکنے دیتے تھے۔ اسکول میں موسم گرما کی چھٹیاں ہونے والی تھیں۔ سلیم کے دوستوں نے کہا کہ کہیں سیر کا پروگرام بنایا جائے۔ سلیم تو پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ وہ سب قریبی کھیتوں میں چلے گئے۔ سخت دھوپ ہونے کی وجہ سے درختوں کی چھاﺅں میں بیٹھ گئے۔ ایک دوست شاہد پیشاب کرنے کیلئے درخت کے نیچے ہی بیٹھ گیا۔ سلیم کو شرارت سوجھی وہ درخت کے اوپر چڑھ گیا اور ٹہنی پر پیشاب کرنے لگا۔ سب دوست ہنسنے لگے ۔ سلیم کو اوپر چیل کا گھونسلہ نظر آیا تو اس کی شرارت کی رگ پھڑک اٹھی اور وہ درخت پر مزید اوپر چڑھنے لگا۔ ایک دوست رشید بولاکہ سلیم اگر تم وہ گھونسلہ لے آﺅ تو ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور اگر سلیم گھونسلہ نہ لا سکا تو وہ سب دوستوں کو کھانا کھلائے گا۔ شرط لگنے کے بعد سلیم مزید جوشیلا ہو گیا۔ ابھی وہ گھونسلے سے تھوڑا ہی دور تھا کہ کسی چیزنے سلیم کو پکڑ کر الٹا کر دیا۔ وہ ہوا میں معلق تھا‘ سب دوست حیران تھے کہ سلیم کو اچانک کیا ہو گیا ہے۔ سلیم زور زور سے چیخ رہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو مجھے چھوڑ دو۔ تینوں دوست سلیم کو بچانے کیلئے درخت پر چڑھے تو کسی نے زور سے دھکا دے کر انہیں نیچے گرا دیا۔ تینوں دوست ایک دوسرے کو الزام دینے لگے کہ تم نے مجھے دھکا دیا ہے۔ سلیم مسلسل چیخ رہا تھا اس کی حالت دیکھ کر تینوں دوست پھر درخت پر چڑھے تو کسی نے زور دار تھپڑ رسید کیا اور دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔ اب تو انہوں نے ڈر کے مارے دوڑ لگا دی اور کافی دور جا کر کھڑے ہو گئے۔ سلیم ہوا میں معلق بچاﺅ کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہا تھا۔ دور ایک کسان نظر آیا تو تینوں دوست بھاگے بھاگے اس کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنایا۔ کسان کہنے لگا کہ یہاں درختوں پر کسی کا سایہ ہے۔ ان کے قریب کوئی بھی نہیں جاتا۔ کسان نے قریب کے کھیت میں بیٹھی اپنی بوڑھی ماں کو بتایا تو وہ ڈنڈا لے کر چل پڑی اور درخت کے نیچے آ کر زور زور سے کہنے لگی کہ یہ بچہ ہے اسے چھوڑ دو ‘ ورنہ میں کلہاڑا لے کر یہ درخت کاٹ دوں گی اور پھر تمام لکڑیاں جلا دوں گی۔اچانک درخت سے آواز آئی کہ اس نے ہمارے اوپر پیشاب کر دیا ہے ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔ بوڑھی اماں نے غصے سے کہا کہ اسے چھوڑ دو اگر اس بچے کو کچھ ہوا تو میں تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے سلیم کو چھوڑ دیا جو دھڑم سے نیچے آ گرا‘ سلیم بے ہوش ہو چکا تھا۔ اسے اٹھا کر ہم کسان کے گھر لے گئے‘ بوڑھی اماں نے وضو کیا اور نفل پڑھنے شروع کر دیئے۔ کسان قریبی مسجد سے مولانا حفیظ صاحب کو لینے چلا گیا۔ مولانا صاحب آئے تو انہوں نے سلیم کی حالت دیکھتے ہی کہا کہ اگر آج بوڑھی اماں نہ آتیں تو جنات نے سلیم کو جان سے مار دینا تھا۔ انہوں نے قرآنی آیات کا ورد شروع کر دیا اور سلیم پر دم کرنے لگے مگر سلیم ہوش میں نہیں آ رہا تھا۔ دوستوں کی تشویش بڑھتی جا رہی تھی کہ اگر سلیم کو کچھ ہو گیا تو وہ گھر جا کر کیا جواب دینگے۔ گھر سے مار پڑنے کا بھی خطرہ تھا۔ تینوں دوستوں نے اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ اچانک ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ دوست بھی روتے روتے چپ ہو گئے۔ بوڑھی اماں بولیں کہ ہم پریشان ہیں اور تم ہنس رہے ہو۔ اب اپنی خیر مناﺅ میں نذیر کو بلواتی ہوں۔ نذیر بوڑھی اماں کا رشتے دار اور عملیات کا ماہر تھا۔ تینوں دوست سلیم کے گھر چلے گئے تاکہ انہیں صورت حال سے آگاہ کیا جا سکے۔ شام تک سب لوگ وہاں اکٹھے ہوئے گئے۔ اتنے میں نذیر بھی آ گیا۔ اس نے جنات سے کہا کہ سلیم بچہ ہے آپ اسے معاف کر دیں، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو میں عمل کے ذریعے آپ سب کو قید کر دوں گا۔ آواز آئی کہ ہم اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہاں اتنا کر سکتے ہیں کہ اس کی جان نہ لیں مگر یہ بے ہوش ہی رہے گا۔ بوڑھی اماں نے نذیر سے کہا کہ یہ جنات ایسے نہ مانیں گے ان کو سزا دینا ہی پڑے گی۔ میں نے عمل کے ذریعے سے سلیم کی جان تو بچا لی ہے مگر اسے ہوش میں نہیں لا سکتی۔ نذیر عمل شروع کرنے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ آواز آئی ”ٹھہر جاﺅ ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں مگر مشروط طور پر“ کیا شرط ہے تمہاری، نذیر بولا۔ یہ بچے دوبارہ اس طرف نہ آئیں اور تین دن تک ہمیں دیسی مرغ کی بریانی کھلائی جائے، جس جگہ بچوں نے پیشاب کیا ہے اس جگہ نئی مٹی ڈال دی جائے۔ بوڑھی اماں بولی کہ ہمیں تمہاری شرط منظور ہے ۔ تھوڑی دیر بعد سلیم کو ہوش آ گیا تب سب کی جان میں جان آئی۔ اگلے دن درختوں کے نئی مٹی ڈال دی گئی اور تین دن تک دیسی مرغ کی بریائی پکا کر درختوں کے قریب رکھی گئی۔ تھوڑی دیر بعد برتن سے بریانی غائب ہو جاتی۔ لگتا تھا کہ وہ جنات بھی بڑے چٹورے تھے۔ سلیم صاحب کہتے ہیں کہ آج بھی ان درختوں کے قریب کوئی نہیں جاتا۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 178
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں