صبح صبح کشتی میں شور اٹھا کہ میں لٹ گیا‘ لوگوں نے کہا خیر تو ہے؟ کیا بات ہوئی؟ کچھ بتا تو سہی ‘ مگر وہ آدمی بس چلائے جا رہا تھا۔ ایک ہی رٹ لگی تھی کہ میں لٹ گیا ‘ کشتی کے سبھی مسافر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ کسی کو کچھ معلوم ہوتا تو وہ بتاتا کہ کیا بات ہے۔ کشتی بہت بڑی تھی۔ اتنے مرد عورتوں میں ایک طرف بڑے عالم فاضل اللہ کے بندے بھی بیٹھے تھے۔ شور کی آوازیں انہوں نے بھی سنیں رونے پیٹنے والے کو سمجھا بجھا کر جب بات پوچھی گئی تو اس نے کہا غریب مسافر ہوں‘ ایک تھیلی میں زندگی بھر کا سرمایہ میں نے چھپا رکھا تھا۔ کسی ظالم نے وہ تھیلی چرا لی۔ سب کو یہ سن کر افسوس ہوا ۔ کچھ لوگوں نے پوچھا کہ کتنا مال تھا تھیلی میں؟ ا سنے بتایا کہ ہزار اشرفیاں تھیں۔ ایک ہزاراشرفی بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ جس نے سنا اسے افسوس ہوا۔ کچھ لوگ مل کر مشورہ کرنے لگے۔ کشتی کے مالک کو بلایا اور سارا ماجرا اسے کہہ سنایا ۔ اس نے کہا اگر تھیلی کشتی میں ہے تو پتہ چل جائے گا۔ میں سب مسافروں کی تلاشی لیتا ہوں۔ آناً فاناً یہ خبر ساری کشتی میں پھیل گئی۔ جہاز میں مرد‘ بوڑھے‘ عورتیں اور بچے بھی تھے۔ کڑی نگرانی میں سب کی تلاشی لی گئی مگر کسی کے پاس سے گم شدہ تھیلی نہ نکلی۔ اب لوگ اس شخص پر الٹ پڑے ۔ طرح طرح کی باتیں ہوئیں اور ہوتے ہوتے سب کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جھوٹا ہے ۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ سب اسے برا بھلا کہہ کر اپنی جگہ جا بیٹھے۔ جھوٹا سٹپٹا کر اپنی جگہ پر آ بیٹھا جب تک سفر جاری رہا مسافر اسے پھٹکارتے رہے۔ اصل میں ہوا یہ تھا کہ جب سفر شروع ہوا تو یہ جھوٹا پھرتا پھراتا کشی میں گشت کرتا‘ اس عالم فاضل اللہ کے بندے کے پاس بھی پہنچا تھا اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھے سے اس کو معلوم ہوگیا کہ ان اللہ کے نیک بندے کے پاس ہزار اشرفیاں ہیں۔ اب اس فریبی کو ہر لمحہ یہ فکر کھانے لگی کہ کسی طرح ان کی تھیلی اڑا لے۔ جب کوئی تدبیر نہ بن پائی تو اس نے یہ کھیل کھیلا کہ سب شریف لوگ پریشان ہو گئے اور تمام مسافروں کو تلاشی دینا پڑی۔ جب دیکھا سفر ختم ہوا اور کشتی کنارے لگی اور تمام مسافر اتر گئے تو اس جھوٹے نے علیحدگی میں اس اللہ کے بندے سے پوچھا کیا آپ نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا کہ میرے پاس ہزار اشرفیاں ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میرے پاس واقعی ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ اس نے پوچھا پھر وہ تھیلی کہاں گئی۔ انہوں نے جواب دیا جب تو نے اپنی تھیلی گم ہونے کا ڈھونگ رچایا تو میں سمجھ گیا کہ تو نے میری تھیلی ہتھیانے کیلئے یہ سب کھیل کھیلا ہے۔ اگر تھیلی میرے پاس سے نکلتی تو سب کو یقین ہو جاتا کہ میں چور ہوں۔ اس لئے میں نے چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دی۔ جھوٹے نے کہا ہزار اشرفیاں آپ نے دریا میں ڈال دیں؟ جواب ملا ہاں‘ اس نے کہا تب تو آپ کو بڑا نقصان ہوا ۔ جواب ملا نیکی کا بدلہ برائی سے دینے والے ظالم دوست ! میرے نزدیک اہمیت دولت کی نہیں لوگوں کے اس اعتماد کی ہے جو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیلئے مجھے برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اگر میں خائن مشہور ہو جاﺅں تو میری بیان کردہ حدیثوں پر کون اعتماد کرے گا۔
اب آپ یہ بھی سن لیں کہ یہ بزرگ کون تھے۔ یہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کی ” بخاری شریف“ دنیا بھر میں مستند مانی جاتی ہے۔ سچ ہے جو دین کے علم کیلئے کسی چیز کی قربانی دیتا ہے اللہ اس کا بہترین بدلہ اس کو عطا فرماتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 176
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں