میری والدہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر ہیں اور گورنمنٹ ملازمت بھی کرتی رہی ہیں ۔یہ واقعہ 1974ءمیں میری والدہ کے ساتھ پیش آیا۔ آئیے ان کی زبانی سنتے ہیں۔ 1974ءمیں میری پوسٹنگ حاصل پور سے احمد پور شرقیہ ہوئی ‘ میری والدہ بھی میرے ساتھ رہتی تھیں کیونکہ والد صاحب کی وفات ہو چکی تھی اور بہن بھائی سب اپنے گھر والے ہو چکے تھے۔ جن دنوں یہ حادثہ ہوا میری والدہ میری بڑی بہن کے ہاں سیالکوٹ گئی ہوئی تھیں۔ نومبر کی سردی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ ایک شام جب میں مریضوں سے فارغ ہوئی تو میرا چوکیدار ہاتھ میں ایک شاپر لے آیا۔ میںنے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو بولا کہ بی بی جی ! آج ایک مریضہ آئی تھی مجھے کہنے لگی کہ میرے گھر کوئی یہ چیز لاکر دینے والا نہیں تم پچھواڑے والے قبرستان سے بہت پرانی قبر کی مٹی لا دو اور میں لے آیا وہ کل آ کر لے جائے گی۔اس کی بات سن کر میں نے اسے اس کی جہالت پر بہت ڈانٹا اور وہ مٹی باہر پھینکنے کیلئے کہا۔ اس نے وہ مٹی باہر پھینکنے کی بجائے غسل خانے کی چھت پر پھینک دی جو صحن کے کونے میں ملازمین کیلئے بنایا گیا تھا۔ رات ہو گئی میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی۔ آیا اور چوکیدار دونوں میاں بیوی اوپر والے حصے میں رہتے تھے۔ میں والدہ صاحبہ کی کمی محسوس کر رہی تھی اور برآمدے میں بچھی چارپائی پر آ کر لیٹ گئی۔ اچانک ہی مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو میں نے صحن میں دیکھا کہ ایک نقاب پوش عورت صحن سے گزرتی ہوئی میری طرف آ رہی تھی ۔ پڑوس میں ایک آپا رہتی تھیںوہ اکثر ہی شام کو میرے کوارٹر میں آجاتی تھیں اور میری والدہ سے بھی انس رکھتی تھیں۔ میں نے سوچا کہ آپا شاید مجھے اکیلا محسوس کر کے آ گئی ہیں۔ اتنی دیر میں وہ عورت چارپائی پر میرے سامنے بیٹھ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا آپا جی ! آپ کب آئیں اور کہاں سے آئی ہیں ‘ سار ے دروازے بند ہیں اور باہر والے دروازے کو تو کنڈی لگی ہوئی ہے۔ وہ عورت خاموشی سے بیٹھی رہی‘ اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد مایوس ہو کر میں نے وہیں سے دوبارہ پوچھا‘ آپا جی آپ کہاں سے آئی ہیں؟ میرے دوبارہ پوچھنے پر وہ عورت اٹھی اور خاموشی سے صحن کی طرف چلی گئی اس نے میرے سامنے صحن کو کراس کیا اور غسل خانے کی طرف بڑھی جونہی وہ عورت غسل خانے کے دروازے کے پاس پہنچی وہ غائب ہو گئی۔ یہ دیکھتے ہی خوف سے میرے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور میں نے چوکیدار کو آواز دینا چاہی مگر آواز میرے حلق میں دب کر رہ گئی۔ کچھ دیر بعد میری دبی ہوئی آوازیں سن کر چوکیدار اور اس کی بیوی نیچے دوڑے آئے تو میں نے انہیں سارا واقعہ بتایا۔ چوکیدار نے بتایا کہ بی بی جی آپ نے جو مٹی باہر پھینکنے کیلئے کہا تھا وہ میں نے غسل خانے کی چھت پر پھینک دی یہ اسی بات کا اثر ہو گا۔ میری عادت ہے کہ میں سوتے وقت تین دفعہ آیة الکرسی ضرور اپنے اوپر پھونک کر سوتی ہوں اور آج بھی سوچتی ہوں کہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو نجانے وہ نقاب پوش عورت میرا کیا حال کرتی۔ اس واقعے کے بعد کچھ د ن تک میں بخار میں مبتلا رہی اور آج بھی یہ واقعہ یاد کرتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ واقعہ ایک سوال بن کر میرے ذہن میں رہ گیا ہے کہ آخر وہ نقاب پوش عورت کون تھی؟ اور اگر میں نے آیة الکرسی نہ پڑھی ہوتی تو میرا کیا حال ہوتا؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں