مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی اور عارف باللہ بھی تھے اور متکلم اسلام بھی اور تمام کمالات انسانیہ سے موصوف بھی۔ ان کو علماءو مشائخ دونوں میں بڑی مقبولیت حاصل رہی۔ مولانا کی عمر ابھی چھ برس کی تھی کہ ایک جمعہ کو بلخ میں اکابر شہر کے لڑکوں کے ساتھ چھت پر سیر کر رہے تھے کہ ایک لڑکے نے کہا آﺅ اس چھت سے دوسری چھت پر کودیں۔ مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے ہنس کر جواب دیا کہ یہ تو کتے بلی اور دوسرے جانور بھی کر سکتے ہیں۔ اگر قوت روحانی ہے تو آسمان پر چلو اور منازلِ ملکوت کی سیر کرو یہ کہتے ہی نظروں سے غائب ہو گئے‘ لڑکے چلانے لگے آپ پھر ظاہر ہو گئے اور فرمایا کہ جس وقت میں تم سے بات کر رہا تھا سبز قبا والوں کی ایک جماعت مجھے تمہارے درمیان سے اٹھا لے گئی ‘ بروجِ آسمان اور عجائب عالم روحانی کی سیر کرائی ‘ جب تمہارے چلانے کی آواز پہنچی تو مجھے پھر یہاں پہنچا دیا۔ مولانا کے والد رحمتہ اللہ علیہ جب بلخ کو ترک کر کے بغداد میں آئے اور مدرستہ مصتنصریہ میں قیام فرما تھے تو آپ نصف شب میں پانی طلب کیا کرتے تھے مولانا اٹھ کر جاتے دروازہ از خود کھل جاتا اور دجلہ سے پانی لے آتے۔ واپس آتے تو دروازہ پھر بند ہو جاتا ۔ دربان نے جب بار بار یہ حالت دیکھی لوگوں سے ذکر کیا اور حضرت بہاﺅ الدین متفکر ہوئے اور دربان کو خاموشی کی نصیحت کی وہ تائب ہو کر مرید ہو گیا۔
یوں تو حسنِ خلق کا کوئی شعبہ ایسا نہ ہو گا جس کی بہترین مثال مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں موجود صفات میں نظر نہ آتی ہو مگر آشتی اور صلح پسندی کا وصف آپ کے تمام اوصاف میں سب سے زیادہ نمایاں وصف تھا۔ اس وصف کی وجہ آپ اکثر بڑے بڑے فتنوں کو ٹال دیتے تھے۔
تواضع کی کیفیت یہ تھی کہ ایک راہب مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے علم و حلم کی شہرت سن کر قسطنطنیہ سے بغرض ملاقا ت آیا۔ اتفاقاً راستے میں ملاقات ہو گئی۔ اس نے پے در پے تیس مرتبہ مولانا کے سامنے سر جھکایا اور جب سر اٹھایا تو دیکھا کہ مولانا سر جھکائے ہوئے ہیں۔ اس نے پریشان ہو کر کہا آخر تواضع کی کوئی حد بھی ہے مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جب ہمارے سلطانِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” طُوبٰی لِمَن تَوَاضَعَ“ ۔تو میں کیونکر تواضع نہ کروں۔ وہ راہب مع اپنے رفقاءکے مسلمان و مرید ہو گیا۔ مدرسہ میں جب تشریف لائے تو فرمایا کہ آج ایک راہب چاہتا تھا کہ تواضع اور مسکنت میں بازی لے جائے ‘ الحمد للہ کہ میں ہی غالب رہا۔ اور عفو ودر گزر کا یہ عالم تھا کہ ایک روز مولانا اپنے حجرہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں محتاج ہوں جب مولانا رحمتہ اللہ علیہ کو نہایت مستغرق دیکھا تو غالیچہ پاﺅں کے نیچے سے نکال کر لے گیا۔ خواجہ فخر الدین مراغی نے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے چلے وہ شخص بازار میں غالیچہ کو فروخت کر رہا تھا انہوں نے لعنت اورملامت کرنا شروع کی اور اسے مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لائے ‘ مولانا نے فرمایا اس شخص نے انتہائی محتاج ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے اسے معذور سمجھو بلکہ اس سے خرید لو۔
مولانا رحمتہ اللہ علیہ کا بذاتِ خود مالِ دنیا سے متنفر ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی ‘ بڑی بات یہ تھی کہ آپ اپنے مریدوں اور مخلصوں کیلئے بھی مالِ دنیا کی کثرت پسند نہیں کرتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے مریدین با اخلاص مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے اس منشاءپر صدقِ دل سے عامل تھے۔ شیخ صلاح الدین رحمتہ اللہ علیہ اور چلپی حسام الدین رحمتہ اللہ علیہ مالِ وقف سے مطلق نفع نہ اٹھاتے تھے‘ چلپی حسام الدین کو اس معاملے میں اس درجہ اہتمام تھا کہ مدرسہ کے پانی سے وضو تک نہ کرتے تھے۔ لوگ روپیہ اشرفی لا کر مولانا کے تکیے کے نیچے رکھ دیتے تھے مولانا رحمتہ اللہ علیہ ان کی خاطر قبول کر لیتے اور خاموش رہتے جب رات کو نماز کیلئے اٹھتے تو سب کنویں میںڈال دیتے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ دوستوں کو کیوں نہیں بخش دیتے ‘ فرمایا کہ دوست یہ ہے کہ محبوب چیز دوست کو دے اورمالِ دنیا‘ زہر قاتل ہے جس چیز سے مجھے زحمت ہوتی ہے‘ میں نہیں چاہتا کہ و ہ تمہیں دےدوں۔
ایک مرتبہ بہاﺅ الدین نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ چاہتے ہو کہ تم اپنے دشمن کو دوست سمجھو اور وہ تمہیں اپنا دوست سمجھے؟ پس چالیس روز تک اس کی نیکی کے سوا اور کچھ نہ کہو۔ جس طرح دل سے زبان تک راہ ہے اسی طرح زبان سے دل تک راہ ہے۔ کسی شخص نے کہا میں ایک چیز بھول گیا ہوں ‘ فرمایا دنیا میں ایک چیز ہے اسے نہ بھولنا چاہیے وہ فرمانِ الٰہی ہے۔ باقی اور تمام چیزیں فراموش ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں اور اگر ان تمام چیزوں کو یاد رکھا اور اس فرمان کو بھول گئے تو پھر کچھ نہ کیا۔
مولانا کی وصیت
انتقال سے قبل مولانا نے اپنے اصحاب کو وصیت فرمائی تھی کہ سرًاو علانیةً اللہ سے ڈرتے رہو‘ کھانے ‘ سونے اور گفتگو میں کمی کرو‘ گناہوں سے دور رہو’ روزے برابر رکھو‘ رات کے قیام میں ہمیشگی اختیار کرو‘ شہوتوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دو‘ ہر طرح کے لوگوں کی جفاﺅں کو برداشت کرو‘ نادانوں اور عامیوں کی ہم نشینی چھوڑ دو ‘ نیکوں اور بزرگوں سے مصاحبت رکھو‘ بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے اور بہترین کلام وہ ہے جو کم اور پوری ہو۔تمام تعریف اور توصیف اللہ کیلئے ہے جو بہت بڑی بزرگی والا ہے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 145
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں