انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے لمحات آتے ہیں جہاںوہ خود کو اکیلا اور تنہا محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ اس کے روز و شب دوستی اور دشمنی کے موتیوں سے پروئی گئی مالا سے بنے ہوتے ہیں جس کے دھاگے میں وہ بری طرح الجھا رہتا ہے کیونکہ ہر انسان ان دنیاوی رشتے ناطوں کو خود پر ہاوی کرلیتا ہے اور ان سے مضبوطی سے بندھا رہتا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کسی رشتے سے انحراف نہیں کرپاتا۔ ہر انسان جذبات کی رو میں بہتے ہوئے ان رشتوں کی آخری حد تک جا پہنچتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہو جاتی ہے اور تمام عمر رشتوں کو نبھانے میں گزر جاتی ہے لیکن وقت اور حالات اسے رشتوں کے خالص اور پائیدار ہونے کا ثبوت دے دیتے ہیں جس کے باعث بعض رشتوں کی ڈوری تو ٹوٹ جاتی ہے اور بعض رشتے مزید مضبوطی سے جڑ جاتے ہیں۔
انسان خواہ کسی کے بہت قریب ہے یا دور اس کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ بعض اوقات افراد میں وابستگی محض وقتی ہوتی ہے لیکن اس ساتھ میں برسوں کی اپنائیت اور انس پایا جاتا ہے جو بچھڑنے کے بعد بھی ایک دوسرے کو قریب لانے کا موجب بنتا ہے۔ دوسری جانب برسوں کا ساتھ کبھی کبھی اجنبیت بھرا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد موجود مختلف افراد ہماری زندگی کی تکمیل میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح ضرور شامل رہتے ہیں۔ ہماری خوشیوں میں شریک ہمارے دوست احباب ان لمحوں کا لطف دوبالا کردیتے ہیں۔ زندگی کے یہ پل سب سے حسین اور اہم ہو جاتے ہیں۔ ہنستے کھیلتے گزرتے ان لمحوں میں اس وقت ہلچل مچ جاتی ہے جب کوئی دشمن ہماری خوشیوں میں غموں کا تحفہ لے آئے اور پریشانیوں سے ہمیں نواز دے۔ دشمنی دو صورتوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک جب کوئی اپنا یا غیر آپ سے حسد کرے، یہ آپ کے حسن، آپ کی لوگوں میں اہمیت، آپ کی حیثیت یا مقام سے ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت انجانے میں کسی کا دل دکھانے یا کسی کے حق میں یا مخالف میں کوئی بات کہنے سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں دشمنی کی حدد پار بھی کی جاسکتی ہے۔ جیسے خاندانی دشمنیاں جو برسا برس تک جاری رہتی ہیں اور بدلے کی آگ میں کئی خاندان جل کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ دوسری تمام مخلوق کی نسبت عقل و شعور زیادہ ہے لیکن جذباتی عنصر ہمیں رشتوں کی تفریق کرنے میں Miss Guide کرتا ہے اور ہم کسی مسئلے کو سلجھانے کی بجائے اسے مزید الجھا دیتے ہیں نتیجتاً رشتے نبھانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے اور ہم غلط سمت پر چل نکلتے ہیں۔
مختلف رشتوں کا یہ تانا بانا انسان کی زندگی کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں لیکن ہر رشتہ آپ کا مرہون منت ہوتا ہے بعض حالات میں ہمیں بنا کسی افسوس، کسی خوشی، کسی غرض کے ان رشتوں کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے مجبور کردیا جاتا ہے لیکن اگر یہ رشتہ اعتماد اورخلوص کی عمارت سے تیار کیا گیا ہے تو حالات کے سخت اور پیچیدہ تھپیڑے اس عمارت کو گرنے میں ناکام رہیں گے۔ اکثر اوقات ہم اجنبیوں سے رشتہ استوار کرنے میں پرانے رشتوں سے منہ پھیر لیتے ہیں لیکن مصیبت پڑنے پر یہ پرانے رشتے ہی ہمارا ساتھ دیتے ہیں نور نئے رشتوں میں دراڑ پر جاتی ہے۔ لہٰذا ہر انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ رشتے نبھانے اور انہیں سمجھنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسے ان میں کھوٹ محسوس نہ ہو۔ کبھی بھی رشتوں کو پرکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ایسا کرنے سے نہ صرف دنوں میں کدورتیں پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ ان رشتوں میں سے اعتماد اور خلوص بھی ختم ہو جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں