رینڈیر دنیا کے سرد ترین علاقوں میں رہتے ہیں جہاں لاکھوں سال سے برف جمتی چلی آرہی ہے ‘ اللہ نے انہیں سر سے پاوں تک روئیں دار کھال کی شکل میں ایک ایسا گرم کمبل عطا کررکھا ہے جو انہیں شدت کی سردی سے بچائے رکھتا ہے
رینڈیر‘ ہرن ہی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے مگر عادات و اطوار‘ شکل وشباہت میں ہرن سے مختلف بھی ہے۔ ہرن کے خاندان میں یہ واحد نسل ہے جس کے نر اور مادہ‘ دونوں کے سروں پر سینگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس عام ہرنوں میں صرف نرسینگوں سے آراستہ ملتا ہے۔
رینڈیر کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ٹخنے پر ایک خاص قسم کا پٹھا نمایاں نظر آتا ہے ہراٹھتے قدم کے ساتھ اس پٹھے کی حرکت سے کلک کلک کی مخصوص آواز پیدا ہوتی رہتی ہے اور اگر بہت رینڈیر اکٹھے جارہے ہوں تو اس کللک کلک‘ سینگوں کے آپس میں ٹکرانے اور ان چوڑے سموں کی ملی جلی آواز سے بے پناہ شور اٹھتا ہے اور جب یہ چنگھاڑتے ہیں تو اس شور میں چار گناہ تک اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
فطرت بڑی توازن پسند ہے اوراللہ نے اپنی ہر مخلوق کو ماحول کے مطابق زندگی بسر کرنے کا سامان عطا کررکھا ہے۔ رینڈیر دنیا کے سرد ترین علاقوں میں رہتے ہیں جہاں لاکھوں سال سے برف جمتی چلی آرہی ہے اور جہاں کا عام درجہ حرارت اکثر اوقات صفر سے نیچے ہی رہتا ہے۔ اس ہلاکت خیز سردی میں بھی رینڈیر بخوبی زندہ رہتے ہیں۔ اللہ نے انہیں سر سے پاوں تک روئیں دار کھال کی شکل میں ایک ایسا گرم کمبل عطا کررکھا ہے جو انہیں شدت کی سردی سے بچائے رکھتا ہے۔ ان کی کھال کا ہر بال اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے ہوا اندر داخل ہوجاتی ہے اور یہی ہوا سردی میں ان کا دفاع کرتی ہے اور تو اور ان کی تھوتھنی پر بھی نفیس گرم بال ہوتے ہیں جو برف میں دبی گھاس اور کائی کھانے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔
شمالی امریکہ میں پائے جانے والے رینڈیروں کو ”کیری بو“ کہا جاتا ہے۔ ان کی دو بڑی اقسام ہیں عظیم جثے والے ’وڈلینڈ کیری بو‘ جو کینیڈا کے جنگلات اور خار دار جھاڑیوں میں مٹرگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری قسم ’بیرن لینڈز کیری بو‘ کہلاتی ہے جن کا دائرہ حیات یخ بستہ‘ ٹنڈرا کے وسیع و عریض برفانی علاقوں سے شروع ہوکر دور دراز کے شمالی جزائر تک پھیلتا چلا گیا ہے۔
جون میں مادہ رینڈر بچے جنتی ہیں اسی مہینے دونوں جنسوں کے سینگ قدرتی طور پر جھڑجاتے ہیں اور ان کے نیچے سے نئے سینگ نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں۔ طویل سفر‘ سینگوں کے جھڑاو اور بچے جننے کی وجہ سے مادہ رینڈیر عام طور پر خاصی کمزور ہوجاتی ہیں اور جب موسم گرما اختتام کو پہنچتا ہے‘ رینڈیربچے بھی اپنے پاوں پر چلنے پھرنے لگتے ہیں اور خود ان کے نئے سینگ بھی مکمل ہوجاتے ہیں۔ یہ سب نعمتیں موسم گرما ہی اپنے جلو میں لے کر آتا ہے۔
ماہرین حیوانات آج تک اس پہیلی سے پردہ نہیں اٹھاسکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ رینڈیر ہی کے ہرسال سینگ جھڑتے ہیں اور ان کے نیچے سے نئے سینگ نکل آتے ہیں‘ حالانکہ بکری‘ بھیڑ‘ گائے وغیرہ کے بھی سینگ ہوتے ہیں مگر ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آتا۔
یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ موسم گرما میں جب نئے سینگ نمودار ہونے لگتے ہیں تو ان کی جلد میں خون کی گردش بہت تیز ہوتی ہے۔ خون کی اس تیز گردش کی وجہ سے ان کے جسم کا درجہ حرارت اعتدال پر رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ موسم گرما کی گرمی برداشت کرلیتے ہیں اور یہ خون کی گردش دراصل ان کا قدرتی اندرونی ایرکنڈیشننگ سسٹم ہے۔ سینگوں کی جلد سخت‘ مضبوط اور ہڈی کی طرح طاقتور ہوتے ہی یہ نظام خود بخود معطل ہوجاتا ہے
ناروے‘سویڈن اور فن لینڈ کے لیپ خانہ بدوش ابھی تک رینڈیروں کو پالتے ہیں۔ ان میں سے بعض قبائل ان جانوروں کا آزادانہ شکار کرتے ہیں۔ ان کی جو لان گاہ ناروے‘ سویڈن اور سوویت روس کے شمالی علاقے ہیں۔ رینڈیر کا گوشت لذیز ہوتا ہے اور یہ لوگ اسے خشک کرکے دساور کو بھیجتے ہیں ۔اس کے علاوہ رینڈیر کی کھالیں بہت مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ ان سے تیار شدہ گرم کوٹ‘ یورپ اور امریکہ میں بہت زیادہ قیمت پاتے ہیں۔ رینڈیر کی کھال کے ملبوسات کا سب سے بڑا مرکز نیویارک کا مشہور زمانہ ”ففتھ ایونیو“ ہے۔
رینڈیر کی تجارت پر لیپ خانہ بدوشوں ہی کی اجارہ داری نہیں بلکہ سائبیریا میں بسنے والے یاقوت‘ ٹنگوز اور چکچی قبائل بھی یہی کاروبار کرتے ہیں۔ یہ لوگ برفانی خطے میں برف کے گھر بنا کررہتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں