اپنے آپ کو بے قیمت چیز نہ سمجھیں
کوئی ہنرمند، دست کار، مصور، مصنف، شاعر، کسان، استاد، مزدور جو ایک عمر تک جی لیتا ہے۔ کیا وہ اپنی بنائی ہوئی چیزوں اپنے کیے ہوئے کاموں، اپنی تخلیقات کے تناسب، حسن، ہم آہنگی، رموز اور فیوض کا بہتر شعور نہیں رکھتا؟
اگر آپ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ شعور رکھتا ہے تو آپ کی زندگی بھی ایک ایسی ہی شے ہے ایک ایسا ہی تجربہ ہے جسے آپ نے بڑھاپے تک جاری رکھا ایک ایسا پھول ہے جسے آپ نے عمر بھر سنبھالا اس سے محظوظ ہوئے اس نے آپ کو چیلنج دیئے جنہیں پورا کرنے کے لیے آپ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو مجتمع کیا اورب طریق احسن چیلنج کا جواب دیا، اس کے محاسن کو سمجھا اس سے پیار کیا اس سے سرگوشیاں کیں، اسے چاہا۔ اور اب جب آپ ۶۰، ۷۰ یا ۸۰،۹۰ برس کے ہوچکے کیا آپ اس پھو لکے حسن کا ادراک نہیں کرسکتے؟
ادراک کرسکتے ہیں تو پھر آپ اس کو جھٹک کر ایک طرف پھینک نہیں سکتے، آپ اس کو مسترد نہیں کرسکتے۔ آپ اس کو مصیبت اور بلائے بے درماں نہیں کہہ سکتے۔ آپ کا جسم وہی جسم ہے ماں باپ گود میں لے کر جس کی بلائیں لیتے تھے۔ آپ وہی تو ہیں جو بستہ اٹھا کر سکول جاتا تھا۔ وہی تو ہیں جو نقش کھینچتا تھا ، چیزیں بناتا تھا، پڑھاتا تھا، روزی کماتا تھا، شادی غمی کی تقریبات می شامل ہوتا تھا اور کبھی روح محفل بن کر محفل کو گرماتا تھا۔سچ مچ آپ وہی ہیں اپنے آپ کو گیا گزرا مت سمجھئے۔ اپنے آپ پر افسوس مت کیجئے، آپ وہ حرف ہیں جو نکھر کر لفظ دانش بنا، آپ اس چیزکی خوش بو ہیں جو کبھی پھول تھا۔ پھول مرجھا گیا، لیکن اس کی خوشبو باقی ہے۔اب آپ کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اپنا شعور اپنے گھر میں، اپنے پوتوں اور نواسوں، پوتیوں اور نواسیوں میں اپنے گرد و پیش میں بکھیریں، اپنے ادراک حسن زندگی سے تشنگاں کی پیاس بجھائیں، متذبذب اور متردد کی رہنمائی کریں، اپنے ناظرین و سامعین کے سامنے ہم آہنگی اور تناسب اور جہد مسلسل کے طبی اور روحانی اثمار کی نشان دہی کریں۔گھر کے برآمدے کی آرام کرسی پر بیٹھ کر، بستر پر لیٹ کر، ہسپتال رہ کر، بیساکھیوں سے چل کر بھی آپ ایسا کرسکتے ہیں اور پھر آپ کا بڑھاپا آپ کے لیے بوجھ یا زحمت نہیں ہوگا، رحمت ہوگا۔
آپ ایک امانت کے امین ہیں، زندگی کے تجربات کی امانت، سفید بالوں کی امانت، ایمان و یقین کی امانت، ہنر مندی اور چابک دستی کی امانت اور ان سب باتوں کے نتیجے میں حقائق کے شعور کی امانت۔ یہ امانت نظم کائنات کے مطابق آپ کو آگے منتقل کرنی ہے۔ اپنی آخری سانس تک آہستہ آہستہ اسے منتقل کرتے رہئے۔ آخری سانس جب اس بار سے سبک دوش ہوگا تو ایک طرح کا اطمینان ایک طرح کی تسکیل آپ کو اگلی دنیا میں لے جانے کے لیے منتظر ہوگی۔
کوئی دانا بینا امانت کی گٹھڑی کو بھنا کر باہر پھینک نہیں دیتا۔ آپ نے زندگی میں تحمل پر عمل کیا ہے، پانی اور آگ کے طوفانوں کے خلاف ڈٹے رہے ہیں، بادِ مخالف میں اپنے ڈونگے کو کھیتے رہے ہیں۔ اب یہ درد، یہ زخموں کی ٹیسیس، یہ کمزوری آپ کے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ کبھی آپ مصائب کا زورِ بازو اور اسلحہ سے مقابلہ کرتے تھے۔ اب آپ متانت، سنجیدگی، خندہ پیشانی سے، خیال کے زور سے، حکمت و دانش سے، اپنے ظرف کی وسعت سے اس کا مقابلہ کسرکتے ہیں۔ معمل میں زیر تیاری کوئی دوا یا کوئی چیز درجنوں مراحل سے گزرتی ہے آخری مرحلہ اسے کندن بناتا ہے۔ اس لحاظ سے اب آپ کندن ہیں۔ آپ کا کام ہے شفا بخشی۔ اپنے آپ کو بے قیمت چیز نہ سمجھیں۔ آپ ایک باوقار معمر شخصیت کی حیثیت سے حسن و شعور کا ادراک تقسیم کرنے میں منہمک رہیں ۔ اگر ساتھ والا نہیں تو اوپر والا تو آپ کو دیکھ رہا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں