Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری…

ماہنامہ عبقری - مارچ 2019

جناتی دلچسپ زندگی: قارئین! جنات کی زندگی جتنی خطرناک اور پرخطر ہے اتنی دلچسپ بھی ہے‘ جنات زندگی کی وہ معلومات‘ اوڑھنا‘ بچھونا دیتے ہیں جو عام عقل انسانی شعور احساس ادراک میں انسان نہ پاسکتا ہے‘ نہ سوچ سکتا ہے اور انسان گمان نہیں کرسکتا جنات کون سی زندگی دیتے ہیں اور کون سی حیات کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مجھے ایک جن کی بات بیٹھے ہوئے یاد آئی کہ حالانکہ میں فوقانی ثانی جن کے حالات لکھ رہا ہوں ایک دفعہ ایک محفل میں ایک جن نے بڑی عجیب بات کہی۔ فرشتوں کی ڈیوٹیاں: کہا: انسان جنات سے ڈرتے ہیں اگر وہ نہ ڈریں تو جن ان سے طاقتور نہیں کیونکہ انسانوں کے ساتھ اتنے بے شمار فرشتوں کی حفاظت کیلئے ڈیوٹیاں لگی ہیں جو عام انسان تو دیکھ نہیں سکتا اور ہم انسان کےپاس آنہیں سکتے ۔تین گناہ:بس فرشتوں کی ڈیوٹی اس وقت ہٹتی ہے جب انسان یا گناہ کرتا ہے یاجھوٹ بولتا ہے یا اس کے رزق میں حرام آتا ہے۔ اس جن کی بات سن کر میرا دماغ گھوم گیا اور میرے دل میں بات آئی کہ بس تین ہی باتیں تو ہیںجو فرشتوں کی ڈیوٹیاں ہٹا دیتا ہے انسان یا گناہ کرتا ہے یا رزق مشکوک اور حرام کھاتا ہے یا پھر جھوٹ بولتا ہے جس کی وجہ سے رزق حرام اور مشکوک کی وجہ سے اس کے اندر سے روح‘ روحانیت اور خیر و برکت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کا تن، من میلا ہوجاتا ہے اور میلی جگہ پر پاکیزہ اور نورانی مخلوق نہیں آتی اوردوسرے لفظوں میں اس کا تن من بدبودار ہوجاتا ہے اور فرشتوں کو خوشبو پسند ہے وہ بدبودارجگہوں پر نہیں آتے اور مزید یہ کہ اس کا تن من اتنا پرانا ہوجاتاہے اب اسے استغفار جیسی چیز چاہیے کہ وہ نیا ہو اس کو نیاکرے۔
انوکھی کہانی‘ چشم دیدواقعہ:ایک مرتبہ میں بیٹھا سورۂ اخلاص کا وظیفہ کررہا تھا جب ختم ہونے لگا میں نے سورۂ اخلاص دراصل ایک ہی نشست میں گیارہ ہزار پڑھ لی ہردفعہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ‘ میں نے تصور کیا: یااللہ! آج تو کسی ایسے جن سے میرے ملاقات کرا جو مجھے کوئی ایسی انوکھی کہانی یا ایسا واقعہ یا ایسا چشم دید کوئی حال سنائے۔ جو مجھے چونکا دے اور حیران کردے اور میرے ولولے زندہ و تابندہ کرے‘ میں سورۂ اخلاص پڑھ رہا تھا اور یہی سوچ رہا تھا اور بار بار اسی جذبے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کررہا تھا‘ یہ سورۂ اخلاص پڑھنے کا میرا آج چالیسواں دن تھا‘ گزشتہ چالیس دن سے میں مسلسل پڑھ رہا تھا ‘گھنٹوں کا یہ عمل‘ لیکن سچ پوچھیں‘ اس نے مجھے کبھی تھکایا نہیں اور میں کبھی اکتایا نہیں کیونکہ اللہ کی توحید اور وحدانیت کی لذت ہی ایک ایسی انوکھی لذت ہےجو میرے انگ انگ میںاور میرے پل پل میں پیوست ہوگئی بلکہ ایک دفعہ تو ایسے محسوس ہوا اور میں نے یہ بات واضح محسوس کی کہ میرا جسم ایسے ہلکا پھلکا ہوگیا جیسے میرے جسم کا کوئی وزن ہی نہیں ہے۔میں بادلوں سے بھی اوپر چلا گیا: میرا جسم آہستہ آہستہ اٹھا اور پھر اتنا اوپر اٹھا کہ مجھے شہر کی عمارتیں اپنے نیچے محسوس ہوئیں اورشہر کی بلڈنگز اور ٹاور چھوٹے ہوتے چلے گئے پھر مجھے محسوس ہوا کہ میں بادلوں کے اندر سےگزر رہا ہوں اور بادل بھی مجھے اپنے نیچے محسوس ہوئے اور بادلوں کی ٹھنڈک تک کا مجھے احساس ہوا میں بادلوں سے اوپر نکلا اور اوپر اٹھتا چلا گیا پھر مجھے محسوس ہوا کہ اب میں کسی اور دنیا میں ہوں وہ انوکھا جہان ہے جس کو میں نہ لکھ سکتا ہوںجس کے بارے میں‘ میں نہ بول سکتا ہوں اور جس کے بارے میں نہ میں سوچ سکتا ہوں‘پھر میں آگے سے آگے بڑھتا اور اٹھتا چلا گیا‘ میری طبیعت میںایک ہلکا پن تھا اور ایک روح‘ روحانیت‘نورانیت کا ایک انوکھا ہلکا دائرہ اور سکون تھا پھر کچھ دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے ایک انوکھی خوشبو آئی ہے اور ایسی خوشبو آئی جو آج تک میں نے کبھی نہیںسونگھی اور میرا اندر کہہ رہا تھا کہ یہ اتنی اعلیٰ خوشبو ہے نامعلوم جنت کی خوشبو کتنی اعلیٰ خوشبو ہوگی میں سورۂ اخلاص بھی پڑھ رہا تھا اس کا پڑھنا مجھ میں ختم نہیں ہوا اور ساتھ ساتھ ان کیفیات کو بھی محسوس کررہا تھا میں سورۂ اخلاص پڑھتا رہا اور سورۂ اخلاص کا نور مجھے اوپر اٹھاتا چلا گیا اور میں اوپر سے اوپر اٹھتا چلا گیا ۔ انوکھا سکون‘ انوکھا چین اور انوکھی راحت:اور میرے اندر ایک انوکھا سکون‘ انوکھا چین اور انوکھی راحت کا سامان تھا اور ایسی راحت کا سامان جسے میں خود محسوس کررہا تھا پھر مجھے ایک احساس ہوا کہ میرے اردگرد بہت ساری مخلوق ہے جو مجھے انس دے رہی ہے‘ محبت دے رہی ہے‘ پیار دے رہی ہے اور تسلیاں دے رہی ہے۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا ہوا یہ کون ہیں؟ اور کہاں سے آگئے؟ یہاں تو کوئی انسان نہیں ہے‘ میں انسانی دنیا سے شاید سینکڑوں یا ہزاروں میل دور ہوں گا لیکن یہ کون ہیں؟ میں سورۂ اخلاص مسلسل پڑھ رہا تھا اور اپنے جسم کو پھر ہلکا پھلکا روحانی اور نورانی محسوس کررہا تھا اور طبیعت میں ایک سکون اور روح میں ایک روحانیت محسوس کررہا تھا پھر مجھے ایک اور احساس ہوا ‘وہ احساس یہ ہوا کہ میری آنکھیں بند ہورہی ہیں اور میں غنودگی میں جارہا ہوں لیکن مجھے غنودگی میں جانے کا احساس بھی تھا لیکن میں غنودگی میں تھابھی اور میں سورۂ اخلاص بھی پڑھ رہا تھا پھر ایسے محسوس ہوا کہ مجھے کسی چیز نے تھپکی دی اور میں تھپکی کی کیفیت میں ایسا سرشار اور شاداب ہوا کہ مجھے آج بھی اس تھپکی کا بھرپور احساس ہے اور ایسے محسوس ہوا کہ جیسے قدرت نے مجھے تھپکی دی اور قدرت کا ایک حکم محسوس ہوا کہ جسے میں اندر کاا لہام اور غیبی علم کہوں گا جو میرے دل میں اتر رہا تھا اور وہ میرا احساس مجھے بتارہا تھا کہ رب کی بارگاہ میں سورۂ اخلاص کا بہت کمال ‘برکات اور ثمرات ہیں۔ سورۂ اخلاص سے محبت:یہ احساس مجھے صرف سات دن کے بعد ہونا شروع ہوگیا تھا اور آخری دن تک یہ احساس روزانہ ہی ہوتا تھا اب تو سورۂ اخلاص سے میں اتنی محبت کرنے لگا تھا اورسارا دن میں اس گھڑی کا انتظار کرتا اور اس گھڑی کو سب سے زیادہ قیمتی جانتا جن گھڑیوں میں میں سورۂ اخلاص کو پڑھتا۔ مجھے سورۂ اخلاص پڑھنےمیں مزہ آتا تھا میں اسی لطف وکرم کی بارش میں روزانہ بیٹھتا ‘سورۂ اخلاص پڑھتا ‘سفید لباس پہنتا‘ خوشبو لگاتا ‘مصلے پر سفید چادر بچھاتا اور دو زانوں ہوکر سورۂ اخلاص پڑھتا ‘مجھے دوزانوں ہوکر سورۂ اخلاص پڑھنے کیلئے بہت مشق کرنا پڑی‘ دو زانوں یعنی التحیات کی شکل میں بیٹھنا واقعی ایک مشقت سے خالی نہیں لیکن یہ مشق میں نے بہت عرصہ محنت کے بعد حاصل کرلی تھی اب دو زانوں بیٹھ کر سورۂ اخلاص پڑھنا میرے لیے مسئلہ نہیں تھا اب بھی ایسے ہی میں پڑھتا ہوں۔آج چالیسواں دن ہے:یہ روحانی کیفیات مجھے روز ملتی تھی لیکن میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسا کوئی جن مل جائے جو مجھے انوکھی کہانی سنائے جو سچی ہو اور انوکھی ہو اور ایسی داستان ہو جو واقعی سچائی پر مشتمل ہو جو آج تک میں نے اس سے پہلے سنی نہ ہو۔ بس یہ سوچیں تھیں آج میرا سورۂ اخلاص پڑھنے کا چالیسواں دن تھا ۔ میں چالیس دن میں سورۂ اخلاص واقعی پڑھنا تو نہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہوا تھا اور اس کا نور اس کی خیر‘ اس کی برکت میں نے اپنےانگ انگ میں حاصل کی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ ایک سفید رنگ کا بہت بڑا سانپ دروازہ سے نکلا‘ پہلے مجھے ہلکا سا ایک خوف محسوس ہوا لیکن پھر سورۂ اخلاص کی آواز ایسی محسوس ہوئی جیسے اندر سے آواز آئی: یہ سب کچھ وہی ہے جو آپ مانگ رہے تھے۔ اس سانپ نے آتے ہی مجھے سلام کیا‘ بہت خوبصورت تھا اور نہایت سفید رنگ کا اس پر سفید سفید داغ ایسے تھے جیسے سفید موتی اور جواہر اس پر جڑے ہوئے تھے بس میں ان موتیوں کو ہی دیکھے جارہا تھا تو سانپ بولا کہ آقا آپ نے مجھے یاد فرمایا۔ویران کنویں کا رہائشی جن: میں اس کے منہ سے لفظ آقا سن کر اپنی کیفیت میںڈوب گیا کہ میں آقا کیسے ہوسکتا ہوں؟ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کس نے بھیجا کہنے لگا مجھے حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھیجا دراصل حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام دونوں باپ بیٹا بیٹھے ہوئے تھے تو سورۂ اخلاص نے آکر انہیں میری ساری داستان سنائی اور میرے اندر کا وجدان اور جذبہ سنایا جس کو سن کر وہ بے تاب ہوگئے اور انہوں نے مجھے باقاعدہ آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میںجاکر آپ سے عرض کروں وہ واقعہ جو واقعہ خود میری زندگی میں انوکھا ہے اور وہ واقعہ جوخود میری زندگی میں ناقابل فراموش ہے میں نے ان سے پوچھا وہ واقعہ کیا ہے؟ کہنے لگے: میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ ایک ویران کنویں میں رہتا ہوں۔ بلوچستان کے ایک ویران علاقہ میں بہت گہرا کنواں ہے جو کسی دور میں چلتا تھا وہاں آبادی تھی اب وہاں سے آبادی اٹھ کر شہروں میں چلی گئی ہے بس ایک دو گھر ہیں ان کو بھی پانی کی سپلائی مل گئی ہے تو وہ کنویں کو استعمال نہیں کرتے‘ ہمارا مسکن او ر ٹھکانہ وہی کنواں ہے‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب کنواں آباد تھا لوگ اس سے پانی بھرتے تھے کبھی کبھار اگر کنویں میں کوئی چیز‘ جانور‘ کوئی ڈول وغیرہ گر جاتا تھا تو لوگ کنویں کے اندر اترتے تھے اور وہ چیز اندر سے نکالتے تھے۔ ایک بڑا موٹا رسہ ہوتا تھا جس کے اندر ایک ٹوکری ہوتی تھی اس ٹوکری میں آدمی بیٹھتا تھا اور ٹوکری کوآدمی سمیت کنویں میں بھیجا جاتا تھااس کے ہاتھ میں ایک چراغ ہوتا تھا جو وہ روشنی کے لیے استعمال کرتا تھا کیونکہ کنواں اتنا گہرا ہے کہ اندر اندھیراہی اندھیرا ہوتا تھا۔سانپ ماردیا تو بہت نقصان ہوگا: انسانوں کی دنیا میں یہ بات مشہور تھی کہ اس کنویں میں سانپ بہت ہیں اور ان کے بڑوں نے یہ بات کہی تھی کہ وہ سانپ نہیں‘کچھ اور ہیں اور تم نے وہ سانپ مارنے نہیں اگر تم نے وہ سانپ مار دئیے تو تمہارا بہت زیادہ نقصان ہوگا پھر بڑے ایک واقعہ سناتے تھے کہ یہاں کا ایک سردار تھا اس کو آج ایک سو بارہ سال ہوگئے ہیں اس کا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ ایک دفعہ اپنے غلاموں کے ساتھ پانی بھرنے آیا اس نے دیکھا کہ ایک سانپ ہے جو سامنے کنویں میں ایک سوراخ سےنکل کردوسرے سوراخ میں چلا جاتا ہے پھر اسی میں واپس نکلتا ہے اور جہاں سے پہلے نکلا تھا اس میں چلا جاتا ہے اس کے غلام ڈول کھینچ رہے تھےکیونکہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ اسے تین آدمی کھینچتے تھے‘ وہ کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا جب ڈول اوپر آگیا اس نے ہاتھ میں ایک بڑا پتھر لیا اور نشانہ لے کر کھڑا ہوا کہ جب یہ سانپ نکلے گا تو میں اس کو نشانے سے وہیں مار دوں گا جب سانپ نکلا ‘وہ سانپ بہت موٹا اور بڑا نہیں تھا ‘درمیانے درجے کا تھا‘ اس نے اس کو نشانہ لےکر پتھر مارا کیونکہ وہ شکاری اور نشانے باز تھا‘ جنگل کا رہنے والا تھا اور شکار سے ہی اپنی زندگی کا گزر بسر کرتا تھا‘ نشانہ خوب لگا اور شکار ہوگیا یعنی سانپ ایک دم دو ٹکڑے ہوا اور کنویں کے اندر گرگیا۔ اب اس نے بہت سے ڈول نکلوائے کہ سانپ کےٹکڑے دیکھے ‘چند ڈولوں کے بعد سانپ کا ایک ٹکڑا نکلا‘ دوسرے چند ڈولوں کے بعد دوسرا ٹکڑا بھی باہر نکلا آیا۔ غضب ہوگیا ‘ برباد ہوگئے: یہ بہت خوش ہوا کہ میرا نشانہ بہت اچھا ہوا لیکن کچھ ہی دیر کے بعد اسے ایک احساس ہوا کہ ہمارے بڑے کہتے تھے کہ یہاں کے سانپ کو نہ مارنا‘ ورنہ نقصان ہوگا۔ اب یہ پریشان ہوا‘ وہیں گاؤں میں ایک درویش رہتے تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ جنات کا ان کےہاں بہت آنا جانا ہے اور جنات ان کا بہت ادب احترام کرتے ہیں اور وہ جلالی درویش ہے اور بہت غضبناک جلال رکھتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جنات کو سزائیں بھی دیتے ہیں یہ باتیں ابھی تک سنی ہوئی تھیں ان کا کوئی مشاہدہ اور تجربہ نہیں تھا۔ وہ سردار اور گاؤں کا بڑا اسی درویش کے پاس گیا ان کو جاکر سارا قصہ سنایا۔ جب یہ قصہ سنایا تو درویش ایک دم اٹھ کر کھڑے ہوگئے اوراپنی ران پر ہاتھ مارا اور کہنے لگا غضب ہوگیا برباد ہوگئے‘ کچھ نہ بچا اب کیا ہوگا؟ یہ بات سنتے ہی گاؤں کا سردار ان کے پاؤں پڑ گیا اور کہنے لگا : درویش بزرگ مجھے بچالیں میرا ایک ہی بیٹا ہے مجھے بار بار اپنے بیٹے کی جوانی اور اس کی کھلتی مونچھیں جو ابھی پھوٹ رہی ہیں اور اٹھتی زندگی پر ایک احساس ہورہا کہ میرا بیٹا مجھ سے نہ چھن جائے ‘بس اس لیے میں پریشان ہوں‘ وہ پریشانی کے عالم میں پہلے اپنا سر مارتے رہے‘ پھر اپنے گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئے‘ قتل کے بدلے قتل:بہت دیر تک بیٹھے رہے اور یہ سردار پریشان اسے ہوش نہیں کہ میں نے بیٹھنا ہےیا نہیں بیٹھنا اس کے غلام بھی پریشان بہت دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا اور کہنےلگے میں ابھی شاہ جنات کے دربار میں حاضر ہوا تھا‘ وہاں تو آپ کا سخت مقدمہ چل رہا ہے اور وہاں سے فیصلہ ہوچکا ہے ‘قتل کے بدلے قتل ہے وہ کسی کا بیٹا تھا ان کو تکلیف تو نہیں دے رہا تھا وہ دراصل کھیل رہا تھا وہ ایک جن تھا اب فیصلہ یہ ہوا ہے کہ بیٹے کے بدلے بیٹا ہو اور وہ بھی اس کا ایک ہی بیٹا تھا(باقی صفحہ نمبر54 پر)
(بقیہ: جنات کا پیدائشی دوست)
اور اس کا بھی ایک ہی بیٹا ہے اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ایک سانپ اس کے بیٹے کو تلاش کرے گا وہ زہریلا سانپ ہوگا اور اس کو ڈسے گا اور اس کا بیٹا مرجائے گا اور یہ واقعہ صرف تین دن کے اندر ہوجائےگا‘ وہ درویش بہت پریشان تھے اور کہتے تھے مجھے دکھ ہے کہ تیرا بیٹا صرف تین دن کا مہمان ہے اور تین دن کے اندر اندر وہ سانپ اپنا وار پورا کرجائے گا اب یہ بہت پریشان ہوا اور درویش کے پاؤں پڑ کر کہنےلگا کسی طرح انہیں آپ راضی کریں ‘جتنا مال‘ جتنی چیزیں وہ مجھ سےلینا چاہتےہیں لے لیں‘ میرے سارے جانور‘ میرے سارے باغات ‘میری ساری سرداری لے لیں‘ میں فقیر ہوجاؤں گا‘ میں دنیا میں مسکین بن جاؤں گا لیکن میرا وارث مجھ سے نہ لیں‘ میرے بڑھاپے کی اولاد ہے اور اب میں اسی بیٹے کے بغیر کیسے زندہ رہوں گا؟ آپ ایسا کریں کہ ان سے کہیں بیٹے کے بدلے مجھے ڈس لیں ‘میں تو اپنی زندگی گزارے بیٹھا ہوں‘ بس اس کی مناجات تھیں‘ اس کی فریاد تھیں‘ اس کا ایک درد تھا اور وہ رو رہا تھا۔ کام ہوجائے گا: وہ درویش بے تاب اور پریشان تھا‘ اب کیسے ہو بار بار سر جھٹک رہے تھے‘ کچھ بول نہیں رہے تھے اور سوچ رہے تھے کیا کریں اور کیسے کریں؟ کبھی کبھی بزرگ آسمانوں کو گھورتے اور کبھی اپنے سر کو زمین پر جھکا لیتے اور ان کے آنسو ٹپ ٹپ ٹپک رہے تھے تھوڑی ہی دیر میں وہ مراقبہ میں چلے گئے اور بہت دیر مراقبہ میں رہنے کے بعد انہوں نے سر اٹھایا تو ان کے چہرے پر ایک سکون طمانیت اور اطمینان محسوس ہورہا تھا وہ بولے کام ہوجائے گا۔ (جاری ہے)

 

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 417 reviews.