انہوں نے دیکھا‘ اس کی ماں بچہ کو مارتی ہوئی گھر کے دروازہ سے باہر آئی اور بچہ کو گھر سے باہر نکال کر اس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا‘ بچہ گھر سے ذرا دور تک گیا اور پھر واپس لوٹ آیا کچھ دیر تک دروازہ کھٹکھٹایا اور جب دروازہ نہیں کھلا تو گھر کے دروازہ کی دہلیز پر سر رکھ کر لیٹ گیا‘ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ بچہ کچھ دیر روتا رہا اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی کچھ دیر بعد حضرت نے دیکھا کہ ماں نے گھر کا دروازہ کھولا‘ تو دیکھا کہ بچہ دہلیز پر سر رکھ کر سورہا ہے اور بچہ کی معصوم آنکھوں پر آنسو لگے ہیں‘ بس بے تاب ہوگئی‘ محبت اور مامتا سے بچہ کو گود میں اٹھایا‘ سینہ سے لگایا اور اپنے دوپٹہ کے پلو سے بچہ کی آنکھوں اور چہرہ سےآنسو اور جوگرد و مٹی لگی تھی اس کوصاف کیا‘ اور بے اختیار اپنے لال کو بوسے دینے لگی‘ بچہ کی آنکھ لگ گئی تھی ماں نے لاڈ سے پوچھا‘ جب تجھے گھر سے ڈانٹ مار کر نکالا تھا تو تو دور جارہا تھا‘ پھر گھر کی دہلیز پر آکر کیسے سوگیا؟ بچہ نے معصومیت سے کہا: ماں! جب آپ نے مجھے دھکے دے کر نکال دیا تھا تو کوئی ٹھکانہ تلاش کرنے چل دیا تھا‘ مگر مجھے خیال آیا کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں کھانا پینا اور رہنے سہنے کا ٹھکانہ تو مل جائے گا مگر ماں کی چاہت کہیں نہیں ملے گی اس لیے میں لوٹ آیا اور جب دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود دروازہ نہیں کھلا تو دہلیز پر سر رکھ کر لیٹ گیا کہ ماں کی ممتا صرف اسی دہلیز سے ملے گی‘ ماں کو بچہ پر بہت پیار آیا‘ وہ بلائیں لے کر بچہ کو پیار کرتی رہی اور کہتی رہی میرے لاڈلے جب تجھے یہ خیال ہے کہ ماں کی مامتا میرے علاوہ تجھے اور کوئی نہیں دے سکتا تو میں بھی اپنے لال کو کبھی اپنے کلیجہ سے جدا نہیں کروں گی۔
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس منظر نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا‘ میرے رحمٰن رحیم رب کی رحمت کے سمندر سے رحمت اور ممتا کا ایک قطرہ ساری ماؤں کو عطا کیا گیا ہے اس رحمت سے رب کا اپنے اس نافرمان بچہ کے ساتھ عنایت اور ممتا کا یہ حال ہے کہ اس کی شرارتوں سے عاجز آکر اسے گھر سے نکالا مگر بچہ اس خیال سے کہ ممتا صرف اسی در سے مل سکتی ہے دہلیز پر سر رکھ کر سوگیا توماں ساری شرارتوں کو بھول کر بلک بلک کر پیار کرنے لگی تو وہ رب جو رحمٰن و رحیم ہے توّاب کریم ہے غفور رحیم ہے‘ بندہ اس احساس کے ساتھ کہ ساری نافرمانیوں اور گناہوں کے باوجود میرے لیے رحمت‘ مغفرت اور عفو درگزر کیلئے اس در کے علاوہ کوئی اور در نہیں‘ اس کے حضور اس ندامت کے ساتھ ہاتھ پھیلاتا ہے اور چند قطرے آنسوؤں کے احساس ندامت کے ساتھ اس کے در پر ٹپکاتا ہے تو رحمٰن و رحیم رب کی رحمت اپنے بندہ کی بلائیں لے کر اپنی ردائے رحمت سے اس گنہگار چہرہ سے گناہوں کی گندگی کو پونچھ دیتی ہے اور نہ صرف یہ کہ بڑی سی بڑی غلطی و خطا اور کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دیتی ہے بلکہ رحمت اور کرم سےاپنے بندوں کو نواز دیتی ہے کریم رب نے اپنے کلام مقدس میں قانون اور منشور کا اعلان فرما دیا: ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین یہ نہیں فرمایا ہم معاف کردیتے ہیں یا مغفرت فرمادیتے ہیں توبہ کرنے والے کو‘ بلکہ فرمایا ہم توبہ کرنے والے کو محبوب بنالیتے ہیں۔ اسی لیے زبان رسالت مآب حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر دنیا میں کوئی انسان گناہ کرنے والا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ایک دوسری مخلوق کو پیدا فرماتے جو گناہ کرتی اور توبہ کرتی‘ جب اس کریم رب کو توبہ اتنی محبوب ہے تو پھر ہم ساری دنیا سے زیادہ خطاکار‘ گنہ گار کیوں نہ ہوں‘ ساری دنیا کی ماؤں کومامتا دینے والے رحمٰن و رحیم رب کے دروازے کو اس جذبہ سے کھٹکھٹائیں کہ ہم گنہگاروں کیلئے اس در کے علاوہ کسی در سے ماں کی ممتا‘ رحمت‘ مغفرت اور عفودرگزر کی بھیک ملنے والی نہیں اور پھر زندگی کی شام تک اسی کریم کے دروازہ کی دہلیز پر سر رکھ دیں یہاں تک کہ موت کی نیند آجائے اور وہ مامتا بھری ذات اپنے دروازہ کی دہلیز پر سر رکھے نادان بندوں کو اپنی آغوش رحمت میں اٹھا کر محبوبیت اور ممتا کے خلعت فاخرہ سے نواز دے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں