آفس بوائے کروڑپتی اور بزنس مین کیسے بنا؟ انوکھی سچی داستان
اس سلسلے میں قارئین کی آزمودہ تحریریں ’’ ان کی مشکلات‘ فاقے‘ بے روزگاری‘ بیماری کیسے ختم ہوئی؟ کیسے ایک فاقوں میںمبتلا‘ دولت مند ہوا‘‘ شائع کی جائیں گی۔ آپ بھی اپنا یا اپنے کسی عزیز کا آنکھوں دیکھا واقعہ یا سنا ہوا ضرور لکھیں۔ لاکھوں کا بھلا اورآپ کا صدقہ جاریہ
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری رسالہ جولائی 2012ء سے مسلسل پڑھ رہا ہوں اس میں موجود تمام مضامین بہت ہی کمال کے ہوتے ہیں‘ رسالے میں لکھا ایک ایک لفظ ہمارے لیے نئی نئی راہیں کھول دیتا ہے۔ عبقری رسالے میں کچھ چند ماہ سے ایک مضمون ’’فاقے ختم‘ عزت ‘ برکت اور دولت کیسے ملی؟‘‘ کے نام سے چھپ رہا ہے‘ لوگوں کی داستانیں پڑھیں تو مجھے نظروں میں ایک شخص گھومنے لگا اور دل سے ایک آہ کے ساتھ یہ الفاظ نکلے واقعی اس میگزین میں لکھا ایک ایک لفظ سچ ہے‘ واقعی کسی وظیفے یا انسان کے کسی نیک کام کے وسیلے سے اللہ انسان کے فاقے ختم کردیتا ہے اور اسے عزت‘ برکت اور سکون سے نواز دیتا ہے۔ آج میں بھی اسی طرح کی ایک تحریر ماہنامہ عبقری کیلئے لکھنے بیٹھا ہوں اور زندگی میں پہلی مرتبہ کسی میگزین کیلئے لکھ رہا ہوں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں لاہور کا رہائشی ہوں اور میرے گھر کے قریب ہی ایک بہت بڑی آٹو مارکیٹ ہے جہاں سے پورے پاکستان میں آٹو سپلائی ہوتے ہیں اور وہاں ہروقت گہما گہمی رہتی ہے۔ میرے وہاں چند دوست ہیں جن کے اپنے شوروم ہیں۔ ایک دن میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا گپ شپ لگارہا تھا کہ بڑی سی گاڑی میں ایک شخص آیا سب سے بڑے اخلاق سے ملا‘ چند کاروباری باتیں کیں ہنستا ہنساتا سب سے گلے مل کر واپس گاڑی کی طرف چلا‘ ڈرائیور نے دروازہ کھولا‘ وہ صاحب گاڑی میں بیٹھے اور یہ گئے وہ گئے۔ میں بڑی حیرانی سے اسے دیکھتا رہا‘ جب وہ چلا گیا تو میں نے اپنے دوست سے پوچھا یار یہ کون تھا؟ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا یہ فلاں شوروم کے مالک ہیں(اس شخص اور شوروم کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتا) ۔ بہت نیک اور اچھے انسان ہیں۔ پھر میرے پوچھے بغیر ہی ان کے بارے میں جو ان کی معلومات تھیں وہ بتانا شروع ہوئے۔ کہنے لگے:۔
یہ شخص فلاں شوروم پر آفس بوائے کے طور پرمعمولی تنخواہ پر کام کرتا تھا‘ سارا دن صفائی ستھرائی‘ چائے ‘ کھانا لانا‘ جب کوئی گاڑی بک جاتی تو اس کو بھی معمولی کمیشن (مٹھائی کے نام پر) مل جاتا تھا۔ یہ انتہائی ایماندار تھا کبھی بھی اس نے شوروم سے کوئی چیز نہ چرائی نہ کسی کام میں بے ایمانی کی۔ اس کے مالک اس پر اندھا اعتبار کرتے اور اس نے کبھی بھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی تھی۔ اس کے مالک پورا ہفتہ شوروم کھولتے تھے یعنی بروز اتوار بھی چھٹی نہ کرتے مگر یہ جمعۃ المبارک کو لازمی چھٹی کرتا۔ اب میں آپ کو اس کا وہ عمل بتاتا ہوں کہ جس کے کرنے سے اس شخص کو آج یہ مرتبہ‘ عزت‘ دولت اور سکون ملا ہے۔ اس شخص کی بچپن سے عادت ہے کہ یہ جمعۃ المبارک کو صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد علاقہ کی تمام مساجد کو دھوتا ہے۔مساجد کے ساتھ بنے ہوئے باتھ رومز کو دھوتا ہے۔ یعنی پہلے ایک مسجد میں جاتا ہے‘ صفیں وغیرہ اکٹھی کرکے پانی سے اچھی طرح دھوکر وائپر لگا کر صفیں دوبارہ بچھا کر ‘ پھر دوسری میں جاتا ہے اسی طرح پھر تیسری میں‘ جب تک جمعۃ المبارک کا وقت نہ ہوجائے یہ مساجد کو دھوتا ہے۔ بقول اسی شخص کے اس کے اس عمل کرنے اللہ نے اس کے دن رات پھیر دئیے‘ اس کے رزق میں اتنی برکت اور اضافہ ہوا کہ آج یہ اپنے شوروم کا مالک ہے‘ اپنا بڑا سا گھر ہے‘ بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں‘بہت زیادہ خوشحال اور پرسکون ہے۔میں اپنے دوست کی یہ باتیں سن کر اش اش کر اٹھااور میرے دل میں خدا کے گھر کی عظمت مزید بڑھ گئی۔
ابھی میں اس شخص کے بارے میں سوچ ہی رہاتھا کہ میرا دوست مزید بولا کہ جناب آپ کو ایک اور حیرت کی بات بتاتا ہوں یہ آج بھی جمعۃ المبارک کو اپنا شوروم بند رکھتے ہیں اور صبح فجر کے بعد مساجد اور ان کےساتھ بنے باتھ رومز کی جم کر صفائی کرتا ہے۔مساجد کا خوب خیال رکھتا ہے‘ کوئی چیز ٹوٹی ہو‘ خراب ہو‘فوراً لاکر نئی لگواتا ہے یا مرمت کرواتا ہے۔ مجھے اپنے دوست کی باتیں سن کر حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے وہ دروس یاد آگئے جن میں آپ نے مساجد کی خدمت کرنے والوں کے حالات بیان فرمائے کہ کیسے مسجد کی خدمت سے لوگوں کے دکھ درد دور ہوگئے اور آج میں یہ تمام چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ سبحان اللہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں