Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

دیانتداری سے کباڑیہ کے رئیس بننے کی کہانی (بچوں کا صفحہ)

ماہنامہ عبقری - مارچ2015ء

امیر آدمی نے جاتے ہوئے کہا: اچھا ممکن ہے کہ تم کل تک صلاح مشورے کے بعد بیچنے پر راضی ہوجاؤ اس لیے میں کل پھر آؤں گا‘ اس عرصے میں جو کچھ سوچنا ہے تم سوچ لینا۔ یہ کہہ کر امیر دکان سے اترا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا

کسی شہر میں ایک ’’خالد‘‘ نامی غریب کباڑیہ رہتا تھا جو بہت ایمان دار تھا کیونکہ وہ لوگوں سے چیزوں کے زیادہ دام نہ لیتا تھا۔ دوسرے کباڑیے ایک روپے کی چیز دو روپے میں بیچا کرتے تھے مگر وہ اتنا زیادہ منافع لینا گناہ سمجھتا تھا اور آٹھ روپے کی چیز نوروپے سے زیادہ کبھی نہ فروخت کرتا تھا۔ پہلے پہلے تو وہ اس کاروبار سے بڑے مزے میں رہامگر آخر ایک دن ایسا بھی آگیا جب اس کے ہاتھ میں پیسہ نہ رہا ۔ وہ سارا دن دکان پر بیٹھا رہتا مگر نہ کوئی خریدار آتا اور نہ اس کی کوئی چیز فروخت ہوتی‘ مالک دکان اس سے کرائے کا تقاضا کرتےکرتے الگ تنگ آگیا‘ آخر تھک ہار کر ایک دن تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگربیس تاریخ تک تم نے دکان کا کرایہ ادا نہ کیا تو پھر تمہیں دکان فوراً خالی کرنا پڑے گی۔ یہ سن کر تو خالد بہت گھبرایا اور اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ پھر گاہکوں کا انتظار کرتےکرتے اٹھارہ تاریخ ہوگئی‘ مگر خالد کے پاس کرایہ جمع نہ ہوا‘ وہ بہت پریشان تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اٹھارہ تاریخ کی شام کو ایک امیر آدمی اس کی دکان پر آیا اور بہت دیر تک اس کی چیزیں دیکھتا رہا مگر اسے کوئی چیز پسند نہ آئی‘ جب وہ واپس جانے لگا تو یکایک اس کی نگاہ الماری کے اوپر ایک طرف باقی چیزوں سے الگ تھلگ رکھی ہوئی ایک صندوقچی پر پڑی‘ وہ جاتے جاتے رک گیا‘ خالد سے بولا‘ صندوقچی مجھے دکھاؤ۔
خالد نے صندوقچی اتار کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور ساتھ ہی وہ بولا: آپ اسےدیکھ لیجئے مگر میں اسے بیچ نہیں سکتا۔ امیر آدمی نے صندوقچی کو بغور دیکھا تو اسے بے حد پسند آئی کیونکہ یہ صندوقچی نہ لکڑی کی تھی نہ لوہے کی بلکہ کسی عجیب و غریب دھات سے بڑی خوبصورتی سے بنائی گئی تھی۔ اس نےخالد سے کہا بولو‘ اس کی کیا قیمت لوگے؟
خالد نے جواب دیا: میں اسے بالکل نہیں بیچ سکتا جناب! امیر آدمی نےکہا: معلوم ہوتا ہے اس طریقہ سے تم اس کی قیمت بڑھانا چاہت ہو اچھا بولو کیا دوں؟ مگر خالد نے جواب دیا نہیں جناب! میں نےآپ سے پہلے کہہ دیا کہ میں اسے کسی قیمت پر نہیں بیچ سکتا؟ اچھا تو پچیس سو لوگے امیر نے اصرار کیا۔ نہیں جناب! اچھا پانچ ہزار! نہیں محترم! پانچ ہزار تو کیا پچاس ہزار میں بھی نہیں دوں گا۔ امیر آدمی نےذرا رک کر کہا اچھا میں ایک لاکھ دینے کیلئے تیار ہوں‘ اس سے زیادہ ایک روپیہ بھی نہیں! خالد نے پھر بھی انکار میں سر ہلا دیا‘ حالانکہ خالد کیلئے اس وقت ایک ایک روپیہ سو کے برابر تھا اور اگر وہ لاکھ روپےلے لیتا تو اس کی مصیبت کے دن کٹ جاتے‘ مگر اس نے امیر کو صاف جواب دیتے ہوئے کہا ’’بات دراصل یہ ہے جناب! کہ یہ صندوقچی میری نہیں بلکہ کسی دوسرے کی امانت ہے پھر بھلا میں اسے کیوں کر بیچ سکتا ہوں؟‘‘
امیر آدمی نے جاتے ہوئے کہا: اچھا ممکن ہے کہ تم کل تک صلاح مشورے کے بعد بیچنے پر راضی ہوجاؤ اس لیے میں کل پھر آؤں گا‘ اس عرصے میں جو کچھ سوچنا ہے تم سوچ لینا۔ یہ کہہ کر امیر دکان سے اترا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا‘ رات کو خالد گھر پہنچا تو اپنی بیوی سے بولا: تمہیں یاد ہوگا کہ پانچ چھ سال ہوئے‘ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام ’’نعیمہ‘‘ تھا اور جب اس غریب کی ماں اچانک مرگئی تھی تو ہم نے اسے ہمدردی کے طور پر کئی ہفتے اپنےپاس رکھا تھا؟ خالد کی بیوی نےجواب دیا: ہاں، ہاں! مجھے یہ واقعی اچھی طرح یاد ہے۔ خالد نے کہا: اور تم یہ بھی نہ بھولی ہوگی کہ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ یہاں سے اپنی خالہ کے ساتھ چلی گئی تھی تو جاتے وقت وہ اپنی صندوقچی ہمارے پاس بطور امانت چھوڑ گئی تھی‘ جو ابھی تک میری دکان میں محفوظ پڑی ہے۔ آج ایک امیر گاہک بڑی مہنگی قیمت پر خریدنے کیلئےتیار تھا مگر میں اسے کس طرح بیچ سکتا تھا۔ کیا دیتا تھا؟ بیوی نے بے صبری سے پوچھا! ایک لاکھ! خالد نے جواب دیا۔ تم نے بڑی غلطی کی‘ بیوی نےلالچ میں آکر کہا: آج اگر تم اسے بیچ دیتے تو ہمارے وارے نیارے ہوجاتے‘ ہم تو پیسہ پیسہ کے محتاج ہیں‘ اس لیے ہم سے اتنی ایمانداری کس طرح نبھ سکتی ہے‘ اتنے عرصے بعد اس لڑکی کو بھلا کیا یاد رہا ہوگا اور یہ بھی تو پتہ نہیں کہ وہ اس وقت زندہ بھی ہے یا مرچکی ہے؟
خالد نے جواب دیا: مگر جو چیز ہماری نہیں ہے اسے بیچنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہے؟ لیکن اتنے ایماندار بنے رہو گے تو پرسوں دکان کے کرائے کا کیا بنےگا؟ بیوی نے طنز سے کہا۔ جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔ خالد نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا: ایمانداری نہ چھوڑوں گا مگر بدنامی مول لے لوں گا۔ یہی باتیں ہورہی تھیں کہ دروازے پر کسی نے دستک دی‘ خالد نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو ایک برقع پوش عورت اندر داخل ہوئی‘ خالد نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ یہ عورت وہی نوجوان لڑکی نعیمہ تھی جو کبھی ان کے پڑوس میں رہتی تھی۔ تھوڑی دیر تک آرام سے بیٹھنے کے بعد اس نے کہا: چچا جان! آپ کے پاس میری امانت ایک صندوقچی پڑی ہوگی‘ مجھے اس کی بہت ضرورت ہے؟ خالد نے یہ سنتے ہی مکان سے ملحقہ دکان جاکر کھولی اور وہ صندوقچی لاکر نعیمہ کے ہاتھ میں دےدی‘ نعیمہ نے اسے کھول کر پیندے پر ہاتھ رکھا پھر خالد سے کہا ذرا چراغ تولانا چچاجان! خالد چراغ لایا تو اس نے پیندے میں بنی ہوئی تصور کے سر پر ہاتھ رکھ کر زور سے دبایا پیندا ایک دم اوپر اٹھ آیا اور اس کے اندر سے ایک کاغذ کا پرزہ نکلا نعیمہ نے غور سے پڑھا تو اس پر لکھا تھا کہ ہمارے مکان میں درخت کے نیچے ایک برتن دبا ہوا ہے اس میں کئی لاکھ کا زیور ہے جب بھی تمہیں روپوں کی ضرورت پڑے تو زیور نکال لینا۔یہ نعیمہ کی ماں کے ہاتھ کی تحریر تھی جس میں اسے وصیت کی گئی تھی۔ نعیمہ نے اسی وقت خالد کو ساتھ لیا اور اپنے مکان کا دروازہ کھولا پھر درخت کے نیچے سے زمین کھودی گئی تو وہاں سے زیورات کا بھرا ہوا برتن نکل آیا۔اس کی خوش قسمتی میں اب کیا شبہ تھا وہ غریب بہت مسرور تھی‘ اس موقع پر جو اسی دن اس کا امیر آدمی سے معاملہ ہوا تھا‘ خالد نے اسے سارا واقعہ سنایا (کہ کس طرح آج ہی ایک امیر آدمی اسے صندوقچی کا ایک لاکھ دے رہا تھا‘ لیکن اس نے دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔) نعیمہ کو خالد کی ایمانداری پر بہت خوشی ہوئی اور کہنے لگی: ’’چچاجان اگر آپ یہ صندوقچی فروخت کردیتے تو میں لٹ جاتی کیونکہ مجھے کل ہی میری خالہ نے بتایا تھا کہ تمہارے پاس جو صندوقچی تھی اس کے پیندے میں تمہاری والدہ نے تمہارے لیے کاغذ کا ایک رقعہ مرتے وقت رکھا تھا میرا خیال ہے اس میں تمہارے لیے کوئی خاص بات لکھی ہوگی اور عجب نہیں کہ اپنی ماں کی ہدایت پر عمل کرنے سے تمہیں کوئی خاص فائدہ پہنچے وہ بتانے لگی کہ خالہ کی یہ بات سن کر میں فوراً یہاں چلی آئی اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ اگر ایسے ایماندار نہ ہوتے تو مجھے یہ زیور کبھی نہ ملتا‘ اس لیے اب آپ کو اس میں سےآدھا حصہ لینا ہوگا جو کہ میں اپنی خوشی سے آپ کو دیتی ہوں۔ خالد نے بہت انکار کیا مگر نعیمہ کسی طرح نہ مانی تب خالد کو نصف زیور لینا ہی پڑا‘ دوسرے دن جب اس نے یہ زیور بیچا تو اسےپینتیس لاکھ  روپےوصول ہوئے لیکن اگر وہ لالچ میں آکر دیانتداری کو ہاتھ سے چھوڑ دیتا تو اسے صرف ایک لاکھ ملتا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ لالچ بُری بلا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 395 reviews.