راجستھان کا ایک طالب علم ہائی سکول میں فیل ہوگیا‘ دوسرے سال اس نے پھر امتحان دیا مگر وہ دوبارہ فیل ہوگیا۔ اس کے بعد جب اس کا تیسرے سال کا نتیجہ آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب بھی فیل ہے تو اس کو سخت دھچکا لگا وہ اتنا بیزار ہوا کہ گھر سے بھاگ نکلا۔چلتے چلتے وہ ایک گاؤں کے کنارے پہنچا اس کو پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے جس پر کچھ عورتیں اور بچے پانی بھررہے ہیں۔ وہ کنویں کے پاس پہنچا تاکہ اپنی پیاس بجھاسکے۔ مگر وہاں اس نےایک منظر دیکھا‘ منظر بظاہر چھوٹا سا تھا مگر وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی پیاس بھول گیا۔ اس کو اچانک محسوس ہوا کہ اس نے پانی سے زیادہ بڑی ایک چیز پالی ہے۔اس نے دیکھا کہ گاؤں کے جولوگ پانی بھرنے کیلئے کنویں پر آتے ہیں عام طور پر ان کے ساتھ دو عدد مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں۔ ایک گھڑے کو وہ کنویں کے قریب ایک پتھر پر رکھ دیتے ہیں اور دوسرے گھڑے کو کنویں میں ڈال کر پانی نکالتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ جس پتھر پر گھڑا رکھا جاتا ہے وہ گھڑے رکھتے رکھتے پتھر گھس گیا ہے۔
’’گھڑا مٹی کی چیز ہے‘ اس نے سوچا‘ مگر جب وہ بار بار بہت دنوں تک ایک جگہ رکھا گیا تو اس کی رگڑ سے پتھر گھس گیا۔ استقلال کے ذریعہ مٹی نے پتھر کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ مسلسل عمل نے کمزور کو طاقت ور کے اوپر غالب کردیا۔ پھر اگر میں برابر محنت کروں تو کیا میں امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیا کوشش کے اضافہ سے میں اپنی کمی پر قابو نہیں پاسکتا۔‘‘یہ سوچ کر بھاگے ہوئے طالب علم کے قدم رک گئے‘ وہ لوٹ کر اپنے گاؤں واپس آگیا اور دوبارہ تعلیم میں اپنی محنت شروع کردی۔ اگلے سال وہ چوتھی بار ہائی اسکول کے امتحان میں بیٹھا۔ اس بار نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ اس کے پرچے اتنے اچھے ہوئے کہ وہ اول درجہ میں پاس ہوگیا۔ تین بار ناکام ہونے والے نے چوتھی کوشش میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پتھرکا یہ سبق نوجوان کی زندگی کیلئے اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا جو طالب علم ہائی سکول میں مسلسل ناکام ہوکر بھاگا تھا۔ وہ اس کے بعد مسلسل فرسٹ آنے لگا۔ یہاں تک کہ ایم اے میں اس نے ٹاپ کیا۔ (باقی صفحہ نمبر 52 پر)
(بقیہ: پتھر کا سبق)
اس کے بعد وہ ایک اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونی ملک میں گیا اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں جو صرف ایک گاؤں میں پیش آیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرجگہ ایسے ’’پتھر‘‘ موجود ہیں جو آدمی کوزندگی کا سبق دے رہے ہیں جو ناکامیوں میں سے کامیاب بن کر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں اگر آدمی کے اندر نصیحت لینے کا مزاج ہو تو وہ اپنے قریب ہی ایسا ایک ’’پتھر‘‘ پائے گا جو خاموش زبان میں اس کو وہی پیغام دے رہا ہو جو مذکورہ نوجوان کو اپنے پتھر سے ملا تھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں