اور اس سال پھر ہمارے سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے ہونہار طالب علم نام ہے‘ سید عمر علی۔
ٹیچر کے منہ سے اپنا نام سن کرہم خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ تمام دوست ہمیں مبارک باد دے رہے تھے اور ہم اپنا انعام لینے کیلئے خراماں خراماں اسٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے کہ اچانک امی کی آواز گونج اٹھی۔
عمر اٹھو اسکول نہیں جانا کیا؟یہ ایسے نہیں مانےگا۔ اس کے ساتھ ہی ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا۔ ’’چٹاخ‘‘ ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ابھی ہم اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اور دھماکا ہوا اور امی کی غصے بھری آواز سنائی دی۔’’رات کو دیر سےسوتا ہے اور صبح وقت پر نہیں اٹھتا۔ اب ہم نے بدحواس ہوکر آنکھیں کھول دیں اور اپنا گال سہلاتے ہوئے اٹھ کر اردگرد کا جائزہ لینے لگے۔
اب ہمیں پتا چلا کہ ہم دراصل خواب دیکھ رہے تھے۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ ہم سوتے وقت الارم لگانا بھول گئے تھےاور فجر کی نماز بھی قضا ہوچکی تھی‘ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ سکول کی وین (گاڑی) تو نکل چکی تھی۔ ہمیں بس سے سکول جانا پڑے گا اور آدھا سفر پیدل طے کرنا پڑے گا۔ٹائم دیکھا تو خوش قسمتی سے پون گھنٹہ ابھی باقی تھا۔ ہم جلدی سےا ٹھے اور باتھ روم چلے گئے پندرہ منٹ باتھ روم میں لگ گئے۔
پھر ہم نے جلدی جلدی یونیفارم پہنا۔ جوتے نکالے مگر ان پر پالش نہیں ہوئی تھی لہٰذا ہمیں پریشانی اٹھانی پڑرہی تھی۔
ہمیں یاد آیا امی نے کہا تھا کہ اپنا سامان وغیرہ رات ہی کو نکال کر رکھ لینا ورنہ صبح پریشانی ہوگی مگر ہمیں ہوش کہاں تھا۔
ہم تو اس وقت کھیل میں مصروف تھے اب ہمیں رہ رہ کر امی کی نصیحت کا خیال آرہا تھا۔ ہم نے جوتے پہن لیے اور بال بنانے لگے لیکن بال تھے کہ بن ہی نہیں رہے تھے۔
آخر دس منٹ اس میں لگ گئے تو ابو کہنے لگے پتا نہیں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر کونسا سنگھار کرتا رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سارا اسکول اسی کو دیکھنے آتا ہے۔
اب ابو سے کیا کہتے۔ ہم نے جلدی میں ناشتہ بھی ٹھیک سےنہیں کیا اور سب کو خداحافظ کہتے ہوئے گھر سےنکل پڑے۔ ایک بس آگئی ہم نے اس پر سوار ہونے کیلئے راڈ پکڑا کہ اچانک ایک زوردار دھکا پڑا اور ہم دوفٹ پیچھے جاگرے دوبارہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھے اور ان لوگوں کی پرواہ کیے بغیر جو ہم پر ہنس رہے تھے‘ زبردستی بس میں سوار ہوگئے۔
بس مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ہم نے کنڈیکٹر کو مسافروں سے پیسے لیتے ہوئے دیکھا تو بے اختیار ہم نے بھی کرائے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کرایہ ادا کیا۔
ہمارا سٹاپ آنے والا تھا۔ ہم گیٹ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اب ایک نیا مسئلہ درپیش ہوا بس کے رکتے ہی مسافر بس میں دھڑا دھڑ سوار ہونے لگے۔
ہم نیچے اترنے کی کوشش کرتے‘ لیکن چڑھنے والے مسافر زیادہ تھے اس لیے ہم پھر اوپر پہنچ جاتے بڑی مشکل سےاتر پائے۔ اب ہمیں آدھا راستہ پیدل طے کرنا تھا۔
ہم خوش تھے کہ چلو بس سے تو جان چھوٹی۔ لیکن جب ہم نے گھڑی دیکھی تو ہماری خوشی فوراً رخصت ہوگئی۔ آٹھ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے اگر ہم بھاگ کر راستہ طے کرتے تو ممکن تھا کہ مقررہ وقت پر پہنچ جاتے۔
ہم نے بھاگنا شروع کیا آخر ہم سکول کے قریب پہنچ گئے۔ اب جو ہم نے نیچے نگاہ دوڑائی تو ہمارے داہنے پاؤں کا انگوٹھا جوتے سے باہر نکلا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی ہماری بے بسی پر ہنس رہا ہو۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ ہم اس جوتے کی مرمت کروانا بھول گئے تھے۔
جیسے تیسے کرکے سکول پہنچ ہی گئے۔ پہلا پیریڈ کیمسٹری کا تھا۔ استاد سب کی کاپیاں چیک کررہے تھے۔
جب ہماری باری آئی تو ہمیں یاد آیا کہ رات کو ہم کھیلنے میں اس قدر مصروف تھے کہ ٹائم ٹیبل سیٹ کرنا بھول گئے تھے۔ ’’چٹاخ‘‘ کی آواز کے ساتھ ہی سر (استاد) نے ہمارے پیارے سے گال پر اپنی انگلیوں کے نشانات چھوڑ دئیے اور ہم سے کان پکڑ کر فوراً کھڑے ہوجانے کو کہا۔
صبح ہی صبح اس بھول کی وجہ سے دو مرتبہ ہماری شامت آچکی تھی اور ہم پھر اپنے حافظے کو کوستے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
آخر چھٹی ہوہی گئی ہم اپنی سکول وین میں جاکر بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر آرام سے گزرا اور ہم خیرو عافیت سے گھر پہنچ گئے۔وین ہمیں گلی کے موڑ پر اتار کر چلی گئی۔ ہم اپنے اوپر پڑنے والی آفات کا سوچ رہے تھے۔ بارش کی وجہ سے گلی میں جگہ جگہ کیچڑ پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے ہم سڑک کےکنارے چلنے لگے۔
ہم اپنی دھن میں مگن چلے جارہے تھے اور گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ بدقسمتی سے ہمارا پاؤں کسی کم بخت کے پھینکے ہوئے کیلےکے چھلکے پر جاپڑا۔ ہم چھلکا پھینکنے والے کو برا بھلا کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم بری طرح سے کیچڑ میں لت پت ہوچکے تھے اس لیے تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو امی نکلیں اور ہمیں دیکھ کر کہنےلگیں ’’معاف کرو بابا! ابھی کھانا نہیں پکا تھوڑی دیر بعد آنا‘‘ یہ سن کر ہمارے تن بدن میں آگ لگ گئی‘ مگر ہم نے بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ ہم ان کے بیٹے ہیں۔ یہ سن کر امی کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور ہم اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے باتھ روم کی طرف چلے گئے۔
باتھ روم سے نکل کر کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں جانے لگے تو ابو نے اپنے کپڑے دیتے ہوئے کہا کہ میرے کپڑے استری کردینا مجھے شام کو ضروری کام سے جانا ہے۔ ہم نے ابو سے کپڑے تو لے لیے‘ لیکن تھکن سے ہمارا برا حال ہورہا تھا ہم نے سوچا کہ ابھی تھوڑی دیر کیلئے سوجاتے ہیں۔ ابو کوکونسا ابھی جانا ہے بس یہ سوچ کر ہم اپنے بستر پر لیٹے اور تھکن کی وجہ سے فوراً ہی سوگئے۔ سو کر اٹھے تو تروتازہ ہوچکے تھے کہ ابو کی آواز سنائی دی۔ عمر میرے کپڑے استری کردئیے‘ جلدی سے لے آؤ مجھے دیر ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ لیا کیونکہ اس وقت بجلی بھی نہیں تھی۔ شاید آپ لوگوں کو بھی ’’چٹاخ‘‘ کی ایک آواز سنائی دی ہوگی۔ دوستو! آپ نے دیکھ لیا کہ وقت پر کام نہ کرنے سے کتنا نقصان ہوتا ہے‘ امی ابو ناراض‘ اساتذہ ناراض اور پریشانیاں الگ اس لیے ہمیشہ اپنا کام وقت پر کیا کرو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں