اس نے خالہ کو مخاطب کیا: ” خالہ! وہ دیکھو میرا بیوقوف بھائی مجھے لینے آیا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی اور خوفناک شخص بھی ہے۔
خالہ انہیں میری چوڑیاں دے دو‘ انہیں میرے جھمکے اور گانی بھی دے دو‘ لیکن ان سے کہیں کہ مجھے نہ لے جائیں
ٰقرآن حکیم میں فرمان ہے: ”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور راہ الٰہی میں اس کو خرچ نہیں کرتے‘ انہیں عذاب الیم کی بشارت دے دو۔ قیامت کے دن وہ سانپ کی شکل میں ان کے گردنوں میں ڈال دیا جائے گا‘ ان سے کہے گا کہ ہم وہی خزانہ ہیں جسے تم جمع کر کے رکھتے تھے“۔ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ یہاں اگر کسی بھائی کی بالشت بھر زمین بھی ہتھیا لی گئی تو قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ ہتھیانے والے کی گردن پر ہو گا‘ یا یہ کہ اونٹ اور بکری قیامت کے روز غاصب کی گردن پر سوار ہوں گے اور کہیں گے کہ ہمارا مالک فلاں ابن فلاں تھا‘لیکن اس ظالم نے ہمیں چرایا یا ہتھیا لیا تھا۔ ان اقوال مقدسہ کا تعلق بھی ایمان بالغیب اور آخرت سے ہے۔ لیکن بسا اوقات انسان اس دنیا میں بھی اپنی چشم تر سے ان فرمودات میں پوشیدہ حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ قانون شہادت مجریہ 1872ءکی روشنی میں دو واضح مشاہدے میں نے بھی کئے ہیں جو نذر قارئین کئے جاتے ہیں:
سرگودھا کی ایک پڑھی لکھی انتہائی حسین و جمیل لڑکی کے والدین وفات پا گئے جبکہ اس کا اکلوتا بھائی کمسن تھا۔ حقیقی خالہ نے نوجوان لڑکی اور کمسن لڑکے کو سنبھال لیا۔ لڑکی بی اے کرنے کے بعد جھنگ کے ایک بڑے زمیندار سے اپنی پسند کا نکاح کر بیٹھی جبکہ لڑکا خالہ کے پاس رہ گیا۔ لڑکی خوبصورت اور پڑھی لکھی ہی نہ تھی بلکہ بہت تیز طرار اور ہوشیار بھی تھی۔ اس نے دیکھا کہ چھوٹا بھائی سیدھا سادہ اور بدھو سا ہے‘ تو اس نے کھیل کھیلا اور ماں باپ کی کروڑوں کی جائیداد پر قبضہ جما کر بیٹھ گئی۔ جھنگ سیال کے نواح کی جائیداد شوہر کی طرف سے موجود تھی اور سرگودھے کی زرخیز کھیتیاں اور انتہائی قیمتی شہری جائیداد والدین کی طرف سے ہاتھ آگئی‘ تاہم ہوس زر اور ہل من مزید کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں۔ خالہ سمجھاتی رہی‘ لیکن اس اللہ کی بندی نے کسی کی نہ مانی اور سادہ لوح چھوٹے بھائی کے حصے کی جائیداد بھی عملاً ہتھیا لی۔ سیدھا سادہ بھائی اس کے شاطرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہ کر سکا اور قیام پاکستان کے آس پاس بالکل پاگل ہو کر سڑکوں پر نکل گیا اور پھر اسے بے بسی اور کسمپرسی کی موت نے آلیا۔
سرگودھا کی شہزادی نے جھنگ آکر شوہر کے نوابی محلات آباد کئے اور انہیں اپنی اور اپنے مظلوم بھائی کی بے پناہ دولت سے چار چاند لگا دیئے۔ اس کی گود میں یکے بعد دیگرے دو لڑکوں اور ایک لڑکی نے جنم لیا۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور عیش کے باوجود تن آسانی اور ہوس دنیا سے جنم لینے والی ناآسودگی نے شہزادی کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا۔ وہ ذیابیطس کی مریضہ تھی جبکہ 1967ءمیں اس کے گردے بھی جواب دے گئے۔ دونوں لڑکے ایچی سن کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے جبکہ بچی کوئین میری سکول کی طالبہ تھی۔ اس کے شوہر نامدار‘ اس کی ڈھلتی جوانی اور دولت کو بھول بھال کر اب ایک مزارع کی بیٹی بیاہ لائے تھے اور اسے ہنی مون کےلئے مری لے گئے تھے۔
شہزادی کی خالہ سے ہماری خاندانی جان پہچان تھی۔ یوں شہزادی اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز میری نگاہ میں تھے۔ مئی 1967ءکے لگ بھگ میں پی اے ایف ہسپتال سرگودھا کی پرانی بلڈنگ میں اس کی تیمارداری کےلئے گیا تو اس وقت اس کا عالم نزع تھا۔ خالہ بیچاری پلنگ کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ مجھے اور میری بیوی کو دیکھ کر اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ میں نے دیکھا کہ سکراتِ موت کے باوجود ادھیڑ عمر شہزادی کے حسین چہرے پر اجڑے حسن کی یادگاریں موجود تھیں۔ موٹی سیاہ آنکھیں‘ گول چہرہ‘ انتہائی گورا رنگ‘ صاف شفاف رخسار‘ پتلے ہونٹ اور خوبصورت سفید دانت آج بھی دلربائی کے انداز لئے ہوئے تھے۔ تاہم وہ اس وقت بے پناہ بے چینی میں مبتلا تھی۔ اللہ جانے! اس آخری گھڑی میں اس نے سرخ لباس اور بانہوں ‘کانوں اورگلے میں سونے کے زیورات کیوں پہن رکھے تھے۔
میرے سامنے وہ نیم بیہوشی مےں پلنگ پر اٹھ بیٹھی اور اپنے تینوں بچوں اور شوہر کے نام لے لے کر انہیں بلانے لگی۔ بوڑھی خالہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ اسے تسلی دینے لگی۔ چند منٹ بعد وہ کرب کی حالت میں لیٹ گئی اور پھر اٹھ بیٹھی۔ اب اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں اور اس کے چہرے پر خوف و اضطراب کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس کے جسم سے ایئرکنڈیشنڈ کمرے کی سردی کے باوجود پسینہ پھوٹ پڑا۔ اس نے چھت کی طرف گھبرائی ہوئی نگاہوں سے دیکھا اور خالہ کو مخاطب کیا: ” خالہ! وہ دیکھو میرا بیوقوف بھائی مجھے لینے آیا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی اور خوفناک شخص بھی ہے۔ خالہ انہیں میری چوڑیاں دے دو‘ انہیں میرے جھمکے اور گانی بھی دے دو‘ لیکن ان سے کہیں کہ مجھے نہ لے جائیں۔ خالہ! میرے بھائی کو منائیں وہ غضبناک نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ خالہ! جلدی کریں‘ میرا زیور اس کے حوالے کر کے میری خلاصی کرادیں۔ یہ کہہ کر اس نے پوری قوت سے اپنے جھمکوں اور گانی کو اتارنے کی کوشش کی لیکن خالہ نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے۔ شہزادی اسی وحشت و اضطراب کی حالت میں بے ہوش ہو گئی اور پندرہ منٹ بعد نرس نے اعلان کیا کہ اس کی حرکت قلب بند ہو گئی ہے۔ یوں وہ اپنے ناراض بھائی اور اس کے خوفناک ہمراہی کی معیت میں کسی اور جہان کی طرف سدھار گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں