فرمایا: جو گناہ محض خواہشات کے جوش میں ہوجائے اس کی بخشش و مغفرت کی تو امید بھی ہوسکتی ہے مگر جو گناہ بربنائے غرور تکبر ہو اس کی بخشش کی کوئی توقع نہیں۔ فرمایا: جس شخص کو نعمت کی قدر نہیں ہوتی اس کی نعمت اسی وقت زوال پذیر ہونی شروع ہوجاتی ہے
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن سری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا دیکھا کہ رو رہے ہیں پوچھا کیا ہوا فرمایا کہ ایک لڑکا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا میں آپ کو کوزہ لٹکادوں تاکہ سرد ہوجائے۔ اور لٹکا کر چلا گیا اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ایک حور کو دیکھا تو پوچھا کہ تو کس کی ملکیت ہے کہا اس کی جو کوزہ سرد نہ کرے یہ کہا اور کوزہ گرا کر توڑ دیا چنانچہ کوزے کے ٹکڑے وہاں پڑے تھے۔
جنید رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اور مرتبہ فرمایا کہ میں ایک دفعہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا تو آپ کو متغیر دیکھا۔ پوچھا کیا ہوا فرمایا کہ ایک پری نے آکر مجھ سے سوال کیا کہ حیا کیا چیز ہے۔ میں نے جواب دیا جیسے کہ تم دیکھ رہی ہو وہ پانی پانی ہوگئی۔ چنانچہ میں نے وہاں پانی دیکھا۔
آپ کی ہمشیرہ نے چاہا کہ آپ کے گھر کو صاف کردوں۔ مگر آپ نے اجازت نہ دی ایک دن آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت آپ کے گھر کو صاف کررہی ہے پوچھا کہ بھائی تم نے مجھے کیوں نہ کہا اور اجازت کیوں نہ دی اور اب ایک غیرمحرم کو بلایا فرمایا کہ بہن دل کو مغمول نہ کرو یہ دنیا ہے جو ہمارے عشق میں جل گئی اور ہم سے محروم تھی اب حق تعالیٰ کی اجازت سے اس کو جاروب کشی کی اجازت دی گئی ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے سری رحمتہ اللہ علیہ کی طرح کسی شخص کو بھی خلق اللہ پر شفیق نہیں دیکھا۔ نقل ہے کہ اگر کوئی آپ کو سلام کرتا تو خندہ پیشانی سے جواب نہ دیتے لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کوئی سلام کرتا ہے نوے رحمتیں اس پر اور دس رحمتیں جس پر سلام دیا جائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اس لیے مجھے رشک ہوتا ہے اور ترش روئی ختم ہوجاتی ہے۔
نقل ہے کہ آپ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت آپ نے یہ کیا شور جہاں میں ڈال رکھا ہے اگر آپ کو ذات باری سے کامل محبت ہے تو یوسف علیہ السلام کا ذکر چھوڑ دیں۔ اسی وقت آپ کو ندا آئی کہ سری رحمتہ اللہ علیہ ذرا دل کو سنبھالو۔ اس کے ساتھ ہی حضرت یوسف علیہ السلام کا جلوہ دکھایا گیا تو آپ نعرہ مار کر بے ہوش ہوکر گر پڑے اور تیرا دن بے ہوش رہے ہوش آنے پر پھر ندا سنی کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو ہماری درگاہ کے عاشقوں پر نکتہ چینی کرتا ہے۔
ایک دفعہ آپ نے چاہا کہ کسی ولی اللہ دیکھیں آخر ایک آدمی کو ایک پہاڑ پر دیکھا۔ سلام کرکے پوچھا کہ تو کون ہے کہا کہ ”ہو“ پوچھا کیا کرتے ہو کہا ”ہو“ پوچھا کہ تو یہ کہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کو چاہتا ہے۔ یہ لفظ سنتے ہی وہ شخص نعرہ مار کر واصل بحق ہوگیا۔
نقل ہے کہ ایک شخص تیس سال سے مجاہدہ میں تھا میں نے پوچھا کہ تو نے یہ رتبہ کہاں سے پایا۔ اس نے کہا کہ حضرت سری رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے۔ پوچھا کیسے کہا کہ ایک دفعہ میں ان سے ملاقات کیلئے گیا آپ خطوط میں تھے۔ دستک دینے پر پوچھا کہ کون ہے میں نے کہا آشنا فرمایا اگر تو آشنا ہے تو اس کی (اللہ کی) طرف کیوں مشغول نہیں ہوتا اور ہماری پرواہ نہ کرتا۔ پھر اللہ سے دعا کی کہ الٰہی اس کو اپنی مشغول کرلے تا کہ اس کو کسی کی پرواہ نہ ہو چنانچہ اس وقت میرے دل میں نور الٰہی سماءگیا۔
ایک دفعہ آپ کی مجلس گرم تھی۔ اتنے میں خلیفہ وقت کا ایک صاحب۔ احمد نام بڑی شان و شوکت کے ساتھ ادھرسے گزرا۔ اس وقت آپ یہ فرما رہے تھے کہ تمام کائنات میں انسان سے زیادہ ضعیف و کمزور کوئی شے نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی گنہگار بھی نہیں۔ یہ بات تیر کی طرح احمد مصاحب کے جان و جگر پر لگی اور روتا ہوا گھر چلا گیا۔ دوسرے دن پھر آیا مگر وہ شان و شوکت نہ تھی۔ تیسرے دن درویشوں کا لباس پہنے آیا اور کہا کہ آپ کی بات نے میرے دل پر نشتر کا کام کیا ہے اور دنیا کو سرد کردیا ہے۔ میں اللہ کی طرف جانا چاہتا ہوں۔ راستہ بیان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا دو راستے ہیں ایک عام اور دوسرا خاص۔ احمد نے کہا کہ دونوں راستے بیان کریں۔ آپ نے فرمایا کہ عام راہ شریعت کی ہے۔ شریعت حصہ کی پابندی کرو اور خاص راہ طریقت کی ہے۔ پابندی شریعت کے علاوہ دنیا کو بھی ترک کردو یہ سن کر مصاحب جنگل کو نکل گیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک بوڑھی عورت نہایت غمزدہ آپ کے پاس آئی اور کہا میرا نوجوان خوبصورت بیٹا کچھ دنوں سے غائب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ غم نہ کرو سوائے خیر کے اور کچھ نہیں۔ جب وہ آئے گا تو میں تم کو اطلاع کردوں گا۔ تھوڑے عرصے میں اس کی والدہ بیوی اور بچہ آگئے احمد نے کہا شیخ آپ نے ان کو اطلاع کیوں دی۔ فرمایا میں وعدہ کرچکا تھا ماں نے ہر چند اس کو گھر لے جانا چاہا مگر نہ گئے اور ان کو روتا چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گیا چند سال کے بعد عشاءکی نماز کے وقت ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھ کو احمد نے بھیجا ہے آپ گئے تو دیکھا کہ احمد کا آخری وقت ہے۔ احمد نے آنکھ کھول کر دیکھا اور کہا کہ شیخ آپ وقت پر آئے پھر انتقال کرگیا آپ روتے ہوئے جنگل سے آئے تاکہ کفن دفن کا سامان کریں شہر میں آوازآئی کہ جو شخص اللہ کے خاص ولی کی نماز جنازہ پڑھنا چاہے وہ قبرستان شونیزیہ کی طرف جائے۔
فرمایا کہ:۔ گناہ تین وجہوں سے ترک کیے جاتے ہیں۔ خوف دوزخ‘ رغبت بہشت اور شرم مولا“
فرمایا: ”بندہ اس وقت تک ہرگز کامل نہیں ہوتا جب تک وہ دین کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہ دے۔“
فرمایا: عبادت کا سرمایہ زہد ہے اور قناعت کا سرمایہ دنیا سے روگردانی ہے‘ زاہد کا عیش اچھا نہیں اس لیے کہ وہ کام میں مشغول ہوتا ہے۔
فرمایا:۔ جو شخص اس امر کا آرزو مند ہے اس کا دین سلامت و محفوظ رہے اور اسے جسم و روح دونوں کی راحت نصیب ہو اور اس کے فکر و غم میں کمی ہو اسے چاہیے کہ دنیا سے علیحدگی اختیار کرے۔
فرمایا:۔ دنیا میں مشغولیت محض فضول ہے‘ انسان کو صرف اتنی ضرورت ہے کہ اسے اس قدر کپڑا مل جائے جس سے وہ سترپوشی کرسکے۔ اتنی روٹی ملتی رہے جس سے اس کی زندگی قائم رہے اتنا جس سے اس کی پیاس دفع ہوسکے ایسا گھر جس میں وہ اٹھ بیٹھ سکے اتنا علم جس پر عمل کیا جاسکے۔
فرمایا:۔ سب سے زیادہ تنومندی اور طاقت وری یہ ہے کہ اپنے نفس پر قابو حاصل ہو۔
فرمایا کہ:۔ جو گناہ محض خواہشات کے جوش میں ہوجائے اس کی بخشش و مغفرت کی تو امید بھی ہوسکتی ہے مگر جو گناہ بربنائے غرور تکبر ہو اس کی بخشش کی کوئی توقع نہیں کیونکہ کہ ابلیس کا گناہ غرور وتکبر ہی کی وجہ سے تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کی لغرش خواہش کی بنا پر تھی۔ جس شخص کو نعمت کی قدر نہیں ہوتی اس کی نعمت اسی وقت زوال پذیر ہونی شروع ہوجاتی ہے اور اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
فرمایا:۔ جو اپنے نفس ہی کی تادیب اور اپنی اصلاح سے قاصر ہے وہ دوسروں کی تادیب و اصلاح کیا کرسکے گا۔ سب سے دانا اور عقلمند لوگ وہ ہیں جو صرف اسرار قرآنی کو سمجھتے بلکہ ان پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔فرمایا حسن خلق صرف یہی نہیں کہ مخلوق کو نہ ستائے بلکہ کسی سے کینہ بھی نہ رکھے او ر خود سب کا رنج اٹھائے۔ فرمایا محض شک و گمان پر کسی سے علیحدگی اختیار نہ کرو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں