بعض لوگوں پر ظلم کے اثرات ہوتے ہیں اور ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی دنیا بھی چھین لیتا ہے، ان کا کاروبار، ان کا سکون اور ان کا چین سب کچھ اللہ تعالیٰ چھین لیتا ہے اور پھر اگر کوئی ان کو اللہ کے رجوع کی طرف مائل کرتا ہے اور انہیں سمجھا دیتا ہے کہ خیال کرنا کہ یہ ظلم کی کچھ نوعیتیں ہیں۔ ان سے بچ کہ رہ! تو اس کے دل میں گمان پیدا ہوتا ہے کہ شاید میرے ان حالات کی اطلاع کسی نے اس کو کردی ہے حالانکہ اس کو یہ علم نہیں ہے کہ اللہ جل شانہ نے کسی کو دل کی آ نکھیں بھی دی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کے دل کی آنکھوں کو کھول دیتے ہیں اس کے اندر اللہ تعالیٰ عجیب و غریب کیفیات پیدا کردیتے ہیں پھر بعض چیزیں عقل و دانش اور شعور سے ماوراءہوتی ہیں جن کو ہم سمجھ نہیں سکتے شاید بول سکتے ہیںلیکن اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتے۔ صدیق صاحب مکرانی جوکہ میرپور میں رہتے ہیں ایک مرتبہ ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے ایک مکرانی سے کہا، تو کھڑے ہوکر بیان کر، وہ کہنے لگے اڑے ہمیں بیان کہاں آئے، پھر بھی اس نے ایک بات سنائی، کہنے لگا، موسیٰ ولی نے کہا اللہ کو اڑے اللہ! اپنا جلوہ تو دکھاﺅ۔ اللہ نے کہا جاڑے جا تو ہمارا جلوہ کہاں دیکھے گا، یہ اس کی سادہ باتیں ہیں لیکن ”یہ اس کی سادہ باتیں“ اخلاص سے بھری ہوئی تھیں۔ کہنے لگا کہ اس وقت موسیٰ ولی کے چہرے کی کیفیت ایسی تھی کہ اللہ سے کہنے لگا ہم تو جلوہ دیکھے گا۔ اللہ نے جو جلوہ دکھایا موسیٰ ولی کلٹی ہوگئے۔ یہ اس کی اخلاص سے بھری ہوئی معصومانہ باتیں تھیں۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ اللہ کا اکرام کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو ایسے پکارتے ہیں یا نہیں۔ اس کی بات کو سن کر مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چرواہے کی بات یاد آگئی کہ وہ بھی محبت الٰہی میں اللہ سے گفتگو کچھ ان الفاظ میں کررہا تھا۔ کہ تو (اے اللہ) مل جاتا تو اچھی بکری کا دودھ پلاتا، تجھے نہلاتا، تیرے سر سے جوئیں نکالتا، تجھے کپڑے پہناتا، موسیٰ علیہ السلام نے چرواہے کو دیکھا اور یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے ارے دیوانے! اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے۔ سبحان اللہ ان سارے عیبوں سے اللہ تعالیٰ مبرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمائی۔ اے موسیٰ! میرا نیک بندہ بڑی محبت اور معصومانہ انداز سے میرے سامنے باتیں کررہا تھا اور مجھے اس کی باتیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ اے موسیٰ! تونے میرے بندے کو مجھ سے باتیں کرنے سے روک دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ! وہ تو ایسی ایسی باتیں کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا لفظ لفظ اخلاص اور عقیدت سے بھرا ہوا تھا۔ میرے محترم دوستو! جب سننے والوں میں اخلاص اور عقیدت ہو اور سنانے والوں میں بھی اخلاص اور للٰاہیت ہو تو یہ باتیں بھی دل پر اثر کرتی ہیں ورنہ اگر اصلاح کی غرض سے ڈھیروں نصیحتیں بھی کی جائیں تو جس کے دل پر اللہ کی طرف سے اندھیروں کے تالے لگے ہوئے ہوں یا جس کا دل نہ ماننے پر ہٹ دھرم ہو وہ اصلاح کی بات میں بھی اعتراض کے پہلو تلاش کرتا ہے اور دوسروں کو برا بھلا کہتا ہے۔ میرے دوستو! یہ باتیں حقائق ہیں۔ زندگی کے دن رات جو ہم گزاررہے ہیں اور ہمارا اٹھا ہوا ایک ایک قدم، ہماری ایک ایک بات، ہماری موجودہ زندگی کو بگاڑ رہی ہے یا بنارہی ہے؟ میرے دوستو! ایک وہ زندگی ہے جس کے دن رات ہم گزاررہے ہیں جس کو ہم عالم شہود کہتے ہیں اور ایک زندگی وہ ہے جو ہم نے نہیں دیکھی وہ عالم برزخ ہے۔ عالم شہود اور برزخ کبھی برابر نہیں ہوسکتے لیکن میرے دوستو یہ یاد رکھئے کہ دیکھی زندگی بھی ان دیکھی زندگی بھی، چاہی زندگی بھی اَن چاہی زندگی بھی، ان دونوں زندگیوں پر جو چیز اثر ڈال رہی ہے وہ ہمارے بول، ہمارے دن رات کی کیفیات، ہمارے قدم، ہمارا اٹھنا بیٹھنا اور ہمارے شب و روز ہیں۔ قابل احترام دوستو! آج کا دن بہت غنیمت کا دن ہے۔ آج کا دن نقد ہے کل کا پتہ نہیں جو سانسیں آج ہم نے لی ہیں وہ پھر کبھی نہیں آئیں گی۔ آج نقد میں ہے کل ادھار میں بھی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہاری جانوں کو تمہارے مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ تو دوستو! جو موجود ہے وہ آج ہے، کل کا دن تو ہے ہی نہیں۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنی کتاب میں بڑی عجیب بات تحریر فرمائی کہ میرے والد مفتی شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم لوگوں میں میں دیکھتا ہوں کہ غفلت ہے اور میرا عالم یہ ہے کہ میں کسی لمحے اپنے آپ کو فارغ نہیں سمجھتا۔ میں نے اپنے دل کے اندر طے کیا ہوا ہے جو بھی ہے جیسے بھی ہے آج کا دن ہے۔ کل کا دن نہیں ہے۔ کہنے لگے تمہیں بتاﺅں اگرچہ تم محسوس کروگے کہ یہ بھی کیا کوئی کام ہے۔ فرمانے لگے جب میں بیت الخلاءجاتا ہوں تو مجھے اور تو کوئی کام نہیں ملتا۔ میں لوٹا صاف کرنا شروع کردیتا ہوں۔ ان کے رگ و پے میں یہ بات بھری ہوئی تھی کہ آج کا دن ہے، کام کا دن ہے، کام کرنا ہے، کونسا کام کرنا ہے، اپنی آخرت، اپنی قبر اور ہمیشہ ہمیشہ کی آنے والی زندگی کو بنانا اور سنوارنا ہے اور ہے صرف آج کا دن کل کا دن نہیں ہے۔
آج کا دن دیکھا ہوا ہے کل کا دن کسی نے نہیں دیکھا اور کل کے دن کی پیشنگوئی نہ کوئی نبی کرسکتا ہے اور نہ کوئی اللہ کا ولی۔ کل کے دن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پانچ چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا علم صرف میرے پاس ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ نے فرمایا کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا۔ (سورئہ لقمان) ہمارے ہاں ایک زرگر تھے رات کو بیٹھے گفتگو کررہے تھے رات کو سوئے اور گھروالوں کو پتہ ہی نہ چلا صبح اٹھایا کہ آج تو ابا جی نماز فجر کیلئے اٹھے نہیں تو پتہ چلا کہ ابا جی تو اس دنیا میں تھے ہی نہیں کہ بیدار ہوتے۔ اس لئے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اپنے گناہوں سے معافی مانگ کر سویا کرو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے مقبول عمل یہ ہے کہ سب کو معاف کرکے سو۔ سب کو معاف کرکے سونے کی فضیلت یہ ہے کہ ہم مظلوم بن کے جائینگے ظالم بن کر نہیں جائینگے اور صلوٰة توبہ کے دو نفل پڑھ کر سوئیں۔ اگر اللہ توفیق دے تو باوضو اور سورئہ ملک پڑھ کر سوئیں۔ (جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 389
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں