Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

اولین زمانہ کی تجارت اور برکت

ماہنامہ عبقری - فروری 2017ء

نبی کریمﷺ کی ایک پیشین گوئی کے مطابق یہ وہ زمانہ ہے کہ سود کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ تمام تر تجارت بینکوں کے ذریعے سے ہوتی ہے جہاں سودی لین دین ہوتا ہے، اکثر مسلمان سرمایہ دار اور صاحبِ ثروت بھی بغیر سود کسی کو قرض نہیں دیتے اور بعض تو یہودیوں سے بھی زیادہ سود لیتے ہیں۔ سود کے بغیر کاروبار چلانا ناممکن بتایا جاتا ہے، مگر زمانہ رفتہ میں کروڑوں روپوں کا لین دین، تجارت اور قرض بغیر سود کے چلتا تھا۔ چوتھی صدی ہجری کا سیاح ابن حوقل جہاں گردی کرتے ہوئے جب مغربی افریقہ کی آخری حد بادغشت میں پہنچا تو اس نے وہاں اربوں روپے کی تجارت اور بلاسود قرضوں کے لین دین کا رواج دیکھا اور ان کی دستاویز تک پڑھیں، چنانچہ وہ ایک بلاسود قرض کی نسبت اپنی ڈائری لکھتا ہے:’’میں نے ایک رسید قرضہ بادغشت میں دیکھی جو محمد بن ابی سعدون کے قرض کے متعلق تھی۔ اس پر عادل گواہوں کی گواہیاں ثبت تھیں، اس رسید کی رقم 42 ہزار اشرفیاں تھیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق غوری نے آخری دفعہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے قرض لے کر ہندوستان پر چڑھائی کی تھی۔ عالم گیر کے لڑکے مراد بخش گورنر گجرات نے ایک مرتبہ حاجی پیر محمد زاہد علی رحمۃ اللہ علیہ سے چھ لاکھ کا قرض لیا، یہ سب قرضے بلاسود تھے۔ اتنی کثیر رقم کے قرضِ حسنہ کسی ضمانت اور رجسٹری وغیرہ کے بغیر آج کل ملنا تو ناممکن ہے، اس زمانہ میں یہ لین دین سود کے منافع کے لالچ کی بجائے آخرت کے فائدے کے پیش نظر ہوتا تھا، نیت نیک ہوتی تھی، حاجت مندوں کی دعائیں شامل ِحال ہوتی تھیں، جس سے کاروبار چمکتا تھا اور روپیہ بھی محفوظ رہتا تھا، ایسی تجارت آخرت کا اس زمانہ میں لین دین عام تھا۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے تاجر تھے، اکثر شہروں میں ان کی ایجنسیاں قائم تھیں، ان کا بڑے بڑے تاجروں سے معاملہ رہتا تھا اور لاکھوں کا لین دین ہوتا تھا، اس قدر وسیع کاروبار کے ساتھ احتیاط اتنی برتتے کہ ان کے خزانہ میں ایک پائی بھی ناجائز طور پر داخل نہ ہوسکتی تھی ۔ اس احتیاط کے باعث کے اگر کبھی نقصان بھی ہوجاتا تو ملول نہ ہوتے تھے، ان کی اپنے کارندوں کو اس بات کی سخت ہدایت تھی کہ عیب دارتھان خریدار کو دکھلا اور جتلاکر بیچنا۔ ایک دفعہ حفص بن عبدالرحمٰن کو یہ ہدایت یاد نہ رہی اور اس نے عیب و ثواب بتلائے بغیر خز کے تھان فروخت کردیے۔ امام صاحب کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ کفارہ کی اور توکوئی صورت نظر نہ آئی کیونکہ تھان ایسا شخص لے گیا تھا جس کا اَتا پتا معلوم نہ تھا، اس لئے آپ نے ان تھانوں کی قیمت جو تیس ہزار درہم تھی، خیرات کردی تاکہ آخرت میں کوئی مواخذہ نہ ہو۔ ایک اور موقع پر ایک عورت امام صاحب کے پاس خز کا ایک تھان برائے فروخت لائی، امام صاحب نے دام پوچھے تو اس نے سو درہم مانگے۔ امام صاحب نے کہاکہ یہ کم ہیں۔ اس نے کہا تو دو سو روپے دیجئے۔ آپ نے فرمایا تھان پانچ سو سے کم کا نہیں ہے۔ اس پر عورت نے کہا کیا آپ مذاق تو نہیں کررہے؟ امام صاحب نے کہا نہیں اور پانچ سو درہم اپنے پاس دے کر تھان رکھ لیا۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ آخرت کی تجارت رہی تاکہ کسی غلط کاری کا وہاں کوئی خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ ابن ِسیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی تجارت کے وقت آخرت کو پیش نظر رکھتے تھے، آپ ذاتی مفاد کی بجائے خریدار کے مفاد کو ترجیح دیتے تھے، ایک مرتبہ انہیں جرجریا کی اراضی سے مال گزاری میں انگوروں کی کافی مقدار آئی۔ کچھ لوگوں نے اس کا افشردہ نکالنا چاہا تاکہ ان کی جلد نکاسی ہوجائے، ابن ِسیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہاکہ انہیں منقیٰ بناکر بیچو۔ کارندوں نے کہاکہ اس طرح ان کی نکاسی ممکن نہیں، جس پر آپ نے سب انگوروں کو پانی میں پھینکوا کر ضائع کرادیا تاکہ لوگوں تک ایسی چیز نہ پہنچے جو حرام شکل اختیار کرچکی ہو۔ لین دین میں بسا اوقات کھوٹے سکے دے جاتے تھے،آپ کو جونہی ان کا علم ہوتا انہیں دوسروں کو مڑھنے (دینے)کے بجائے خود الگ کرکے رکھ دیتے تھے۔ چنانچہ آپ کی وفات پر ایسے پانچ سو کھوٹے سکے ایک جگہ جمع شدہ ملے۔گزشتہ صدیوں میں مسلمان دنیا کی تجارت پر ایسے حاوی تھے جیسے اس دور میں امریکہ اور برطانیہ کا طوطی بول رہا ہے، دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جہاں مسلمان نہ پہنچے ہوں۔ اس دور کے کاروبار کا آج کی منڈیاں مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
اروبیل سے مراغہ جاتے ہوئےراستہ میں ایک منزل کورسرہ پڑتی تھی، یہاں سالانہ چاند کی ابتدائی تاریخوں میں تجارتی میلے لگتے تھے، ان میلوں میں مختلف قوموں کے تجارتی لوگ شرکت کرتے تھے اور کپڑے، عطر، سرکہ، روشنی کاسامان، ٹھٹھیرے، سونا، چاندی، گھوڑے، خچر، گدھے، گائے، بیل، بھیڑ، بکریوں کی تجارت کرتے۔ میلہ کا یہ میدان 9 مربع میل سے رائد رقبہ پر پھیلا ہوا تھا اور بقول ابن حوقل جہاں گرد، حج کے موقع پر جس قدر ہجوم اور سازو سامان میدان عرفات میں جمع ہوتا تھا یہاں اس سے زیادہ جمع ہوتا اور حج کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ کاروبار کی کثرت کا یہ عالم تاکہ ابو اسحاق ماجروانی نے صرف اس میلہ میں ایک سال دو لاکھ جانور بیچے۔ ابو محمد عبدالرحمٰن ابن السری نے اسی میلہ میں دس لاکھ بھیڑ بکریاں فروخت کیں، اسی میلہ میں ایک دوسرے تاجر شعیب بن میران نے بھی اسی قدر جانور بیچے۔ مصر سے نکل کر صحرائے لیبیا کے مشہور شہر قیروان کو جاتے ہوئے راستے میں برقہ کے شہر سے گزرنا پڑتا تھا، یہ ایک تجارتی مرکز تھا، اس شہر میں اون، سیاہ مرچ، شہد، موم، روغن زیتون وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ یہاں بکثرت تاجروں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کی ہر وقت اور ہر زمانہ میں آمدروفت رہتی تھی۔ یہ سلسلہ آمدروفت کبھی منقطع نہ ہوتا تھا، اس شہر کے راستوں پر قافلوں پر قافلے ملتے تھے جو تمام تر مسلمانوں کی قوتِ عمل اور نیک نیتی کی کرامات تھیں۔ اگلے وقتوں میں تجارت عروج پر تھی، معاملات میں نیک نیتی برتی جاتی تھی، اس لئے تجارت و بیوپار میں بہت زیادہ برکت تھی، دولت عام تھی،خیروخیرات بہت زیادہ تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زیادہ تر تجارت پیشہ تھے اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر یوم آخرت پر رہتی تھی تاکہ وہاں کوئی خسارہ نہ اٹھانا پڑے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں فیاض مشہور تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات پر بارہ لاکھ درہم نقد اور تین کروڑ کی جائیداد چھوڑی۔ ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق آپ کے گھر سے تین بھار (بھار گائے کے چمڑے کو کہتے تھے) وزنی سونا نکلا۔ مشہور صحابی تاجر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کی چاروں بیویوں میں تقسیم کیلئے جب سونا کاٹا گیا تو کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔ ہر بیوی کو اسی اسی ہزار اشرفیاں ملیں۔ باقی حصہ داروں کے حصص کا تو شمار نہیں۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی دولت موجودہ حساب سے 35 ہزار ملین تھی۔ یہ تو دورِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دولت کا حال ہے ان سے بعد کے زمانہ کی یہ کیفیت تھی کہ: خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ الجصاص جوہری کی خانہ تلاشی سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ اشرفیاں برآمد ہوئیں، دکان کے مال اور دیگر اموال کا تو شمار نہیں۔ الفخری کے ایک بیان کے مطابق خلیفہ معتصم باللہ کے زمانہ کے ایک چکی پیسنے والے نے بصرہ سے نقل مکانی کرکے جب بغداد میں کاروبار شروع کیا اس سے اسے اتنی آمدن ہوئی کہ ایک سو اشرفی 

روزانہ زکوٰۃ کی مد میں خیرات کرتا تھا۔ ایران کی قدیم تجارتی بندرگاہ سیراف کے ایک تاجر نے اپنے پاس موجود مال کی وصیت کی تو اس کاثلث دس لاکھ اشرفیوں پر مشتمل تھا، بے زر لوگوں کو تجارت کیلئے اس نے جو سرمایہ دے رکھا تھا، وہ اس کے علاوہ تھا۔ عدن کے سوداگر رامشت کے سب سے چھوٹے لڑکے موسیٰ کے زیر استعمال چاندی کے آلات کا جب وزن کیا گیا تو وہ ایک ہزار دو سو من نکلے، باقی لڑکوں اور اس کے گھر کی دولت اس کے علاوہ تھی۔ اس کے منشی علی نیل کو ایک مرتبہ صرف چین میں مال بیچنے کا منشیانہ پانچ لاکھ دینار ملا۔ مآثر الامراء کے ایک بیان کے مطابق عالم گیر کے زمانہ میں سوات کے ایک ملاعبدالغفور کا سرمایہ تجارت کروڑوں روپے سے زائد تھا۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن پر زکوٰۃ ادا ہوتی تھی اور یہ اسی تجارت اور ثروت کا نتیجہ تھا کہ ایک زمانہ میں مستحقین زکوٰۃ تلاش کے باوجود نہیں ملتے تھے۔ (بشکریہ! ماہنامہ فیض الاسلام)

 

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 462 reviews.