ایک بھائی کے بچے معذور پیدا ہورہےہیں باقی کسی بہن بھائی کے ہاں اولاد نہیں ہورہی۔ ان کے گھر میں فاقے ہی فاقے ہیں‘ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی والدہ کا بھی پچھلے دنوں موٹرسائیکل کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک واقعہ اپنی زندگی کاناقابل فراموش قارئین کی نذر کررہی ہوں۔ تقریباً بیس سال پہلے کی بات ہے کہ بڑی عید کی آمد آمد تھی اور ہم سب لوگ عید پر اپنے گاؤں جاتے تھے تاکہ سب کے ساتھ مل کر عید کرسکیں۔ اس وقت ہم کرائے پر رہتے تھے اور میرے دیور کا گھر ہمارے ساتھ ہی تھا۔ میرے میاں نے کہا کہ پیکنگ وغیرہ کرکے آپ لوگ چھوٹے بھائی کے ساتھ (یعنی میرے دیور) کے ساتھ چلے جائیں۔ مجھے ذرا کام ہے میں لیٹ ہوجاؤں گا۔
خیر! ہم سب مل کر گاؤں چلے گئے جب رات کو میرے میاں گھر آئے سامان لینے کیلئے جب باہر کا دروازہ کھول کر اندر گئے تو اندر کا نقشہ بدلا ہوا تھا کوئی چور چوری کرگیا تھا۔ ٹیچی کے تالے ٹوٹے ہوئے‘ زمین پر کپڑوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے‘ چور نقدی اور زیور لے گئے تھے اور کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا‘ چوری ہمارے پڑوسیوں نے کی تھی۔ حضرت حکیم صاحب! ہمارے گھر کے ساتھ ایک بہت ہی نمازی پرہیزگار بزرگ شخصیت رہتی تھی‘ وہ ہروقت مسجد میں رہتے تھے‘ بہت زیادہ اللہ والے اور بہت نیک ہستی تھے۔انہیں سب قاضی صاحب کہتے تھے۔ محلے والوں نے ہم سے کہا کہ آپ رپورٹ وغیرہ نہ لکھوائیں فیصلہ قاضی صاحب پر چھوڑ دیں۔ خیر جب قاضی صاحب کے علم میں بات آئی تو انہوں نے فرمایا کہ نماز مغرب کے بعد فیصلہ ہوگا جب مغرب کی نماز ہوگئی تو سب نماز اپنی جگہ پر بیٹھے تھے تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ جاؤ قرآن لے کرآؤ‘ فیصلہ قرآن پر ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ہمسائے کہتے تھے کہ چوری ہم نہیں کی۔ قرآن لایا گیا‘ میرے سسر‘ شوہر اور دیور سب پاس ہی تھے۔ قاضی صاحب نے فرمایا: بتاؤ کیا کہتے ہو تو ان کے والد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ہم نے چوری نہیں کی۔ تو میرے سسر نے کہا ٹھیک ہے اگر انہوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر چوری سے انکار کردیا ہے تو اب میں نے فیصلہ اللہ پر چھوڑا اور گھر آگئے۔
اس بات کو تقریباً ایک ہفتہ ہوا تھا کہ ڈیوٹی پر واپسی پر حادثہ ہوا اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانےوالا موقع پر عبرتناک موت مرا۔ محلےوالے سب کہتے تھے کہ جھوٹا قرآن اٹھانے کی سزا ملی ہے چوری اس کے بیٹوں نے کی تھی‘ اس کی موت کے بعد ان کے گھریلو حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ ان کی بہن کی شادی کو آٹھ سال ہوگئے ہیں‘ اولاد نہیں ہے۔ ایک بھائی کے بچے معذور پیدا ہورہےہیں باقی کسی بہن بھائی کے ہاں اولاد نہیں ہورہی۔ ان کے گھر میں فاقے ہی فاقے ہیں‘ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی والدہ کا بھی پچھلے دنوں موٹرسائیکل کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔محترم حضرت حکیم صاحب! میری قارئین سے صرف یہی گزارش ہے کہ ایسے معاملوں میں قرآن پاک کو درمیان میں ہرگز نہ لائیں کیونکہ اگر کسی نے نادانی میں جھوٹی قسم اٹھالی تو اس کا انجام وہ خود تو بھگتتے ہی ہیں ان کی نسلیں بھی بھگتتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہمیں وہ ساری چیزیں جو چوری ہوئی تھیں بلکہ ان سے بھی بہتر دے دیں مگر ان کی نسلیں برباد ہورہی ہیں۔ میں تو ہروقت ان کیلئے معافی کی دعائیں مانگتی ہوں۔(ی۔ اٹک)
اڑھائی تولہ سونا دکان میں گم ہوا تربوز سے نکلا
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! ایک واقعہ پیش خدمت ہے جو کہ بالکل سچا ہے کہ جب انسان رزق حلال کمائے اور اپنے مال کی مکمل زکوٰۃ دے تو اس کا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ 1946ء کی بات ہے کہ میرے نانا صاحب زرگری کا کام کرتے تھے‘ اڑھائی تولہ سونے کی ڈلی کو گرم کرکے پھیلارہے تھے کہ ہتھوڑے کی چٹ جو کہ غیرمتوازی صورت میں سونے کی ڈلی پر لگی اور سونا اڑ کر چوٹ کی وجہ سے بالکل سامنے سبزی فروٹ والے کی دکان میں تربوز کو چیرتا ہوا اس میں داخل ہوگیا اور تربوز کو کٹ لگ گیا۔ میرے نانا جان جو کہ نہایت ہی ایماندار‘ دیانتدار‘جفاکش محنتی تھی بڑی دیر تک سونے کو تلاش کرتے رہے اپنی دکان کی ہر شے الٹ پلٹ کر کئی باردیکھ لی آخر ہمت ہار کر تھک ہار کر دکان بند کرکے شام کو جب گھر واپس آنے لگے تو ان کا معمول تھا اپنے بچوں کیلئے کوئی نہ کوئی پھل لیکر گھر آتے تھے‘ جب پھل والی دکان پر گئے تو تمام پھل بک چکے تھے‘ وہی تربوز بچا پڑا تھا جسےکوئی شخص خریدنا پسند نہیں کرتا تھا چونکہ اس میں کٹ آچکا تھا اور وہ کٹ اس سونےکی ڈلی جوکہ اڑھائی تولےکی تھی اس کی وجہ سے کٹ تھا۔ دکاندار نے کہا کہ مہرصاحب یہ ایک دانہ تربوز کا پڑا ہے بالکل ٹھیک ہے معمولی سا کٹ ہے بہت میٹھا ہے آج آپ میرا کہنا مانیں لے جائیں۔
میرے نانا صاحب نے وہ تربوز لےلیا اور میری نانی صاحبہ کہا کہ کسی ہوادار جگہ پر رکھیں‘صبح نہار منہ سب مل کر اسے کھائیں گے۔ جب صبح ہوئی تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد ناناجی نے نانی صاحبہ سےکہا کہ تربوز کاٹ کر لے آئیں۔ جب نانی صاحبہ نے تربوز کاٹا تو وہ اس میں سے اڑھائی تولہ سونے کی ڈلی نکلی۔نانی صاحبہ بہت حیران ہوئی اور ساراماجرا نانا کو سنایا۔ پھر ناناجی نے بھی اپنا ساراکل والا ماجرا قصہ سنایا کہ یہ سونا ایسے ایسے تربوز میں داخل ہوا ہے جس کو میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک ہار کر بے بس ہوکر یہ تربوز لیکر گھر آگیا۔ یہ سونا اپنا ہی ہے کسی غیر کانہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں