(ایڈیٹر ہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اورانقلابی نام ہے۔ انہو رحمتہ اللہ علیہ ں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔ آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔)
اعتماد کشی جرم ہے
پنجاب کے مارشل لاءکے بعد لاہور میں کانگریس کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی۔ پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت مالو یہ جیسے بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ مہاتما گاندھی بھی تشریف لائے اور شہادتیں شروع ہوئیں۔ سردار سردول سنگھ کو یشر شہادتیں جمع کر رہے تھے۔ خالصہ کالج کے ایک لڑکے نے سردار سردول سنگھ کو بتایا کہ امر تسر کے واقعے جلیانوالہ کے بعد جب خالصہ کالج کے طلباءنے ہڑتال کر دی اور غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے مجمع کی شکل اختیار کی تو اس شور کو سن کر مسٹر داون (انگریز پرنسپل) لڑکوں کے پاس آئے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ہندوستانیوں کے خیر خواہ ہیں اور جنرل ڈائر نے گولی چلانے سے پہلے جب امر تسر کے تمام یورینس کو جمع کر کے فائر کرنے کے متعلق رائے لی تھی تو میں (یعنی مسٹر داون)نے جنرل ڈائر سے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ اس انڈسکریمنسیٹ شوٹنگ (اندھا دھند گولی چلانے ) کو میں نے پسندنہیں کیا۔
سردار سردول سنگھ کویشر نے جب یہ سنا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ فوراً پنڈت مالویہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ مسٹر داون انگریز ہیں۔انگریزوں کا کریکٹر ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ اگر مسٹر داون کو تحقیقاتی کمیٹی میں طلب کیا جائے تو وہ یقینا یہ کہہ دیں گے کہ وہ اس وقت بھی اس خونریزی کو اندھا دھند سمجھتے تھے اور جائز قرار نہ دیتے تھے اور انہوں نے یہ الفاظ طلباءکے سامنے کہے تھے۔
سردار دول سنگھ سے مسٹر داون کے الفاظ سن کر پنڈت مالویہ بھی بہت خوش ہوئے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ راقم الحروف (ایڈیٹر” ریاست“) جو اس وقت سردار سردول سنگھ کے ساتھ بطور پریس کے نمائندہ کے (کیونکہ اس زمانہ میں ایڈیٹر ” ریاست“ لاہور کے ایک اخبار میں کام کرتا تھا) امر تسر جائے اور مسٹر داون سے انٹرویو کر کے بیان لے اور وہ بیان اخبارات میں شائع کیا جائے تاکہ بطور شہادت کام میں لایا جا سکے۔
اس مشورہ کے بعد پنڈت مالویہ اور سردار سردول سنگھ مہاتما گاندھی کے پاس گئے۔ تمام واقعات بیان کئے اور چاہا کہ مہاتما گاندھی جی اس سکیم کے ساتھ متفق ہوں۔ پنڈت مالویہ اور سردار سردول سنگھ کا بیاسسن کر مہاتما گاندھی نے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے:
” مسٹر داون نے اگر پرائیویٹ طور پر لڑکوں سے یہ بات کہی تو یہ ایک قسم کا ان پر اعتماد کیا۔ مسٹرداون کے اس اعتماد کے ساتھ ہمارا غداری کرنا اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا بری بات ہے۔ اس لئے میں اس سکیم کے ساتھ متفق نہیں ہوں اور میں کسی قیمت پر بھی مسٹر داون کے اس اعتماد کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانے دوں گاجو انہوں نے لڑکوں پر کیا“۔
مہاتما گاندھی کے یہ الفاظ سن کر پنڈت مالویہ اور سردار سردول سنگھ دونوں سن ہو گئے اور کچھ نہ کہہ سکے۔ چنانچہ اس سکیم کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا اور مسٹر داون کے بیان لینے کا خیال ترک کر دیا گیا۔
اس واقعہ اور مہاتما گاندھی کے کریکٹر کا راقم الحروف پر یہ اثر ہوا کہ جب کسی نے راز کی بات کہی اس کو ہمیشہ ایک امانت کے طور پر چھپائے رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ درجنوں مہارانیوں اور بیگمات نے اپنے شوہروں اور عزیزوں کیخلاف اطلاعات دیں اور خطوط لکھے۔ ”ریاست“ کے ناظرین اور نامہ نگاروں نے بھی ہمیشہ اطلاعات دیں۔ مگر ان خطوط اور اطلاعات کو ناجائز استعمال کرنے کا کبھی خیال تک نہیں آیا اور اس مسئلہ پر سوچنے کو بھی ہمیشہ کمینہ پن سمجھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں