اللہ ماتھے پر غنی لکھ دیتے ہیں: ایک خوشخبری ہے کہ کوئی بندہ صبح اٹھتے ہی اگر اللہ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اوراس کے حبیب حضورسرور کونین ﷺکو یاد کرتا ہے ۔اللہ اور اس کے محبوب ﷺکی محبت میں ڈوب جاتا ہے، تو اس کے ماتھے پر ایک لفظ غنی لکھ دیاجاتا ہےاور جسے میرا اللہ غنی کر دے کائنات کا کوئی شخص اس کو فقیر نہیں کر سکتا ۔ساری دنیا کے لوگ اس کو دھوکا دے دیں، ساری دنیا کے لوگ اس کے ساتھ فریب کریں، ساری دنیا کے چالاک چالاکی کریں، مکار مکر کریں،شریر شرارتیں کریں، چور چوریاں کریں، بدمعاش ڈاکے ڈالیں اللہ کی قسم اس کو کوئی فقیر نہیں کر سکتا جس کو ہمارا رب غنی کرنا چاہے ۔
اللہ ماتھے پر فقیر لکھ دیتے ہیں:جو شخص صبح اٹھتے ہی اللہ کی ذات اعلیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اس کے حبیب سرور کونین ﷺکی محبت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے وہ عجیب معاملے سے دوچار ہوجاتا ہے ،اس کے ماتھے پر فقیر کا لفظ لکھ دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا کی دولتیں،دنیا کا سارا مال، دنیا کا اقتدار اسے اللہ پاک کے خزانوں سے لینے والا بنا نہیں سکتا اور اس کو اللہ پاک سے دلوا نہیں سکتا، وہ ہمیشہ فقیر رہے گا۔
غیب کے خزانے: یہ ایک کھلی حقیقت ہے میرا رب جس کو دینا چاہتا ہے اور جس کو دینے پر آتا ہے غیب کے خزانے عطا کر دیتا ہے اور جس کی نظر مخلوق کی جیب پر ہوتی ہے وہ لے تولیتا ہے لیکن لے کر پلتا نہیں ہے جس کی نظر اللہ کے خزانے پر ہوتی ہے وہ لیتا بھی ہے وہ پلتا بھی ہے اس کی نسلیں بھی پلتی ہیں ۔
حرام کبھی نہیں پلتا:مجھے ایک صاحب کہنے لگے: ’’کسی دور میں میں وزیر رہا، بڑا نام تھا، بڑا مال کمایا، بڑا اقتدار آیا، بہت کچھ آیا ،مگربچاکچھ نہیں۔‘‘ ہتھیلی پر پھونک مار کر کہنے لگے ’’سب کچھ اڑ گیا، اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میں نے جواباً کہا:وجہ یہ تھی کہ کثرت آئی تھی ، برکت نہیں آئی تھی ۔میں اکثر یہ مثال دیا کرتا ہوں ،کتیا کتنے بچے دیتی ہے؟آٹھ بچے!اور بکر ی ایک یا دو بچے ،ہزاروں میں کوئی ایک بکری ہوگی جو تین بچے دیتی ہے کہ دنیا دارالاسباب ہے اصولاً تو ریوڑ کتیا کے ہونے چاہئیں کیونکہ کتیا بچے زیادہ دیتی ہے۔ یاد رکھنا!! حرام کبھی پلتا نہیں، حرام کبھی سنبھلتا نہیں، حرام کبھی چلتا نہیںہے۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وضاحت: حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ بڑے اللہ والے ہو گزرے ہیں۔ چشتی سلسلے کے درویش ہیں۔ ان کے پاس ایک بندہ آیا کہنے لگے:’’ حضرت بکری کے ریوڑ کیوں ہوتے ہیں ؟خواجہ بختیا ر کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ قربانی حلال جانوردیتا ہے‘ بکری قربانی دیتی ہے اپنا سب کچھ تن، من، دھن کسی اور کیلئے لٹا دیتی ہے پھر اللہ جل شانہ اس کی راہ جو قربانی دیتا ہے اس کو سدابہار رکھتا ہے سدا زندہ رکھتا ہے۔
قربانی دو ،سدا بہار رہو:یہ قدرت کا اصول ہے جو قربانی دیتا ہے اس کو سدا بہار رکھتا ہے یہ رب کا وعدہ ہے۔ وہ قربانی اس گرمی کے اعتبار سے دیں، وہ قربانی اپنے گھر چھوڑنے کے اعتبار سے دیں، ساری مخلوق روک رہی ہے کہ نہ جاؤ‘ اس اعتبار سے قربانی دیں، وہ قربانی ساری مخلوق اعتراض کر رہی ہے اس کی کسی سنت پر، اس کی کسی زندگی پر، وہ اس پرقربانی دیں، وہ قربانی اُس کی تسبیح پر دیں، وہ قربانی اُس کے مراقبہ پر دیں ،وہ قربانی اس کے ذکر پر دیں، وہ قربانی اس کی دینی زندگی پر دیں، وہ قربانی اس کے حجاب پر دیں ،وہ زندگی کے جس شعبہ میں قربانی دیں ،اللہ پاک قربانی والے کو سدابہار رکھتا ہے اور پالتا ہے ۔بظاہر اسماعیل علیہ السلام ذبح نہیںہو رہے ہیں لیکن قربانی پوری دی، چھری کے نیچے پورے آئے اور چھری چل بھی گئی اور خون کا فوارہ بھی نہ نکلا کیونکہ اللہ جل شانہٗ نے قربانی لینی ہی نہیں تھی ۔اللہ قربانیاں مانگتا ہے، لیتا نہیں ہے۔ ہم قربانیاں دینے کے قابل ہی کہاں ہیں؟
اللہ قربانی کیوں مانگتاہے؟:اللہ پاک نے قربانی مانگی اور قربانی اس لیے مانگی کہ بندے کو پرکھے کہ یہ میرابندہ ہے یا اسباب کا بندہ ۔ کس کا؟ عبداللہ یا عبدِ دینار ہے یاعبد درہم ہے ،نوٹ کا بندہ ہے، ریال کا بندہ ہے، ڈالر کابندہ ہے کس کا بندہ ہے؟یہ دنیا کو اللہ پاک نے اسباب کے ساتھ جوڑا ہے۔ ساتھ اسباب بھی لگا دیئے، مجبوریاں بھی لگا دیں، سب کچھ لگانے کے بعد میرے رب نے کہا: ٹھیک ہے اب میں دیکھتا ہوں کون میرا بن کر آتا ہے ۔
میں جنات سے نہیں اپنے رب سے باتیں کررہا تھا: حضرت میاںشیر محمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ شرقپور شریف بڑے اللہ والے تھے۔ ان سے ایک دفعہ کسی بندے نے کہا کہ ’’حضرت رحمۃ اللہ علیہ آپ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے اور آپ باتیں کر رہے تھے لیکن کوئی بندے نظر نہیں آرہے تھے ،کیاآپ کے ساتھ جنات گفتگو کررہے تھے؟ فرمایا: نہیں میں اپنے اللہ سے باتیں کر رہا تھا، اللہ کو اپنے دکھ سنا رہا تھا،اللہ سے اپنی ضرورتیں مانگ رہا تھا اور اللہ کے ساتھ ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے میں اللہ کے حضور بیٹھا ہوں۔ حضرت میاں شیر محمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ شرقپور شریف فرماتے ہیںکہ’’ میرا تصور یہ تھا کہ میرا رب ایک عالی شان اونچی کرسی پر بیٹھا ہے اور میں مجبور و پریشان ہاتھ باندھ کے زاریاں کر کے کہہ رہا ہوںکہ اللہ مجھے یہ بھی چاہیے ، اللہ مجھے یہ بھی چاہیے، اللہ میں پریشان ہوں، اللہ میری یہ مشکل ہے، اللہ مجھے یہ تنگی درپیش ہے، اللہ مجھے یہ دکھ پہنچا ہے، اللہ مجھے یہ غم لگا ہے ۔فرماتے ہیںکہ: ’’میں اللہ کے سامنے ایسے زاریاں کرتاہوںاور دونوںہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہوں ۔ یہ سب بظاہر نہیں ہوتاتھا بلکہ میں جا رہا ہوتاہوں اپنے کسی کام سے ،اپنے راستے پر۔ لیکن میری دل کی اندرونی کیفیت ایسی ہوا کرتی تھی کہ جیسے میں اپنے رب سے سچی التجا کر رہا ہوں۔‘‘حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’میں جنات سے باتیں نہیں کر رہا تھا میں تواپنے رب سے باتیں کر رہا تھا ۔‘‘(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں