قرآن پاک کے محیرالعقول شماریات
(امیرالنساء‘ اٹک)
قرآن مجید جیسی ابدی اور لازوال کتاب کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے‘ چند حقائق پیش خدمت ہیں۔
قرآن مجید کی ایک آیت بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے اس کے حروف کی تعداد 19 ہے‘ قرآن مجید کی آیت تسمیہ میں ہمارے خالق کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘ ایک بار اور صفاتی نام ’’رحمن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ آئے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ اللہ 2698 بار ہے جو کہ 19 کا مضاعف ہے یعنی 19x142=2698 قرآن مجید میں اللہ کا صفاتی نام رحمٰن 57 بار آیا ہے جو کہ 19 کا مضاعف یعنی 19x6=114۔ قرآن مجید کی ترتیب کے لحاظ سے آخر سے الٹا گننا شروع کریں تو انیس نمبر پر سورۂ علق آتی ہے جو کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے پہلی وحی کی پانچ آیات سے متعلق سورۂ ہے اس سورۂ کی تعداد بھی انیس آیات ہیں۔
سورۂ ق حرف ق سے شروع ہوتی ہے‘پوری سورۂ میں حرف ق 57 بار آیا ہے‘ یعنی 19x3=57، سورۂ قلم کی ابتدا ن س ہوتی ہے پوری سورۂ میں ن 133 بار آیا ہے یعنی 19x7=133، سورۂ اعراف، سورۂ مریم اور سورۂ ص کا ابتدائی حرف ’’ص‘‘ ہے۔ ان تینوں سورتوں میں حرف ص 152 بار آیا ہے‘ یعنی 19x8=152
سورۂ اعراف کی آیت نمبر 69 میں لفظ یصطۃٌ جس کے معنی پھیلانے کے ہیں‘ آیا ہے عربی میں یہ لفظ ص سے نہیں س سے ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ اپنے کاتب کو بتادیں کہ اس جگہ اس لفظ میں س کی جگہ ص استعمال کریں اگر یہ لفظ س سے لکھا جاتا تو سورۂ اعراف‘ مریم اور ص میں ص کی تعداد 151 رہ جاتی جو کہ 19 پر تقسیم نہیں ہوسکتا کیا یہ محض اتفاق ہے۔
سورۂ شوریٰ میں ق کی تعداد 57 ہے یعنی 19x3=57، سورۂ یٰسین میں ی اور س کے حروف کی تعداد 285 ہے یعنی 19x15=285، سورۂ شوریٰ میں جو کہ عسق سے شروع ہوتی ہے حروف ع، س، ق کی مجموعی تعداد 209 ہے یعنی 19x11=209۔
سورۂ طٰہٰ میں ط۔ہ کے حروف کی تعداد 342 ہے یعنی 19x18=342۔
سورۂ رعد کی ابتدا المر سے ہوتی ہے اس سورت میں حروف ا، ل، م، ر کی مجموعی تعداد 1501 ہے یعنی 19x79=1501۔
پورے قرآن مجید میں باللہ الیوم الاخر 19 بار آیا ہے۔ قرآن مجید میں یایھا الذین امنوا 89 بار آیا ہے اور یایھالذین امنو تقواللہ 7 بار آیا ہے۔
پورے قرآن مجید میں حرف ک 9500 دفعہ آیا ہے یعنی 19x500=9500
حرف و‘ 25536 بار آیا ہے جو کہ 19 کا مضاعف یعنی 19x1344=25536۔
سورۂ محمد 38 آیات پر مشتمل ہے یعنی 19x2=38
قرآن مجید کی سورتیں انفطار‘ سورۂ اعلیٰ‘ سورۂ علق انیس آیات پر مشتمل ہیں۔ پارہ نمبر 28 کی پہلی سورۂ مجادلہ قرآن مجید کی وہ واحد سورۂ ہے جس کی ہر آیت میں لفظ اللہ موجود ہے یہ سورۂ بائیس آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورۂ میں لفظ اللہ 38 بار آیا ہے۔ یعنی 19x2=38۔
پورے قرآن مجید میں قوم لوط کا ذکر 12 بار آیا ہے‘ ان بارہ مقامات کے علاوہ ایک جگہ سورۂ ق میں قوم لوط کی جگہ اخوان لوط کا ذکر آیا ہے معنی کے لحاظ سے دونوں الفاظ میں کوئی فرق نہیں اگر اس سورۂ میں اخوان لوط کی جگہ قوم لوط کا ذکر آتا تو اس سورۂ میں ق کی تعداد 57 کی جگہ 58 ہوجاتی اور یہ 19 پر تقسیم نہیں ہوسکتا۔ یعنی 19x3=57،
قرآن مجید کی سات سورتیں حم سے شروع ہوتی ہیں ان سب سورتوں میں ح،م کی مجموعی تعداد 2166 ہے یعنی 19x144=2166۔
باالفاظ دیگر حوامیم کی آیات کی تعداد= کل سورتوں کی تعدادxتسمیہ کے حروف۔
اب آخر میں غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کہیں قرآن مجید میں ہندسہ 19 کا تصور موجود ہے۔ اس سلسلہ میں سورۂ مدثر کی آیات 25 تا 30 کا جائزہ لیں۔ ’’وہ جو لوگ قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے بشری کلام تصور کرتے ہیں انہیں سقہ میں داخل کریں گے سقہ وہ آگ ہے جو نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی۔ بدن کو جھلسا کر سیاہ کردے گی ایسے شخص پر دوزخ کے انیس دروغے پہرہ دے رہے ہوں گے۔علیھا شعۃ عشر
قرآن مجید ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ افلا تتذکرون افلا تعقلون افلا تشعرون افلا تشکرون۔
قرآن مجید ہمیں تذکر‘ تعقل‘ تشعر اور تنکر کی دعوت دیتا ہے۔ بلاشبہ یہ آسمانی کتاب ہے اس کے معجزات تاقیامت ظاہر ہوتے رہیں گے اور قیامت تک یہ لوگوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ بنی رہے گی۔
لفظ اللہ 2697 بار، الرحمٰن 57 بار، الرحیم 95 بار آیا ہے۔
طب یونانی ایک فطری طریقہ علاج
(حکیم بدرانجم‘ ازعبدالحکیم)
آج کا دور سائنسی دور ہے‘ سائنس کی نت نئی ایجادات انسان کو حیران کیے دیتی ہیں۔ سائنس کی کرشمہ سازیاں ہر میدان میں نمایاں ہیں لیکن جہاں سائنس نے ہمارے لیے بہت سی سہولیات پیدا کی ہیں‘ وہیں بہت سی پیچیدگیاں بھی پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر زراعت ہی کو لیجئے جہاں سائنس کی وجہ سے ہماری اوسط پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ‘ وہیں کھاد اور سپرے کے بے جا استعمال نے ہماری زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسی طرح صنعت کو لیجئے جہاں کارخانے نت نئی اشیائے ضرورت ڈھیروں کے حساب سے بنارہے ہیں‘ وہیں ان کارخانوں اور فیکٹریوں کا فضلہ اور کیمیکلز نے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ انسان کو محفوظ سے محفوظ بنانے کیلئے آلات حرب بنائے جارہے ہیں لیکن ایٹم بم جیسی ایجادات سے انسان بجائے محفوظ ہونے کے مزید غیرمحفوظ ہوگیا ہے کیونکہ یہ مواد ذراسی کوتاہی کرنےسے انسانی نظام کو درہم برہم کرنے کیلئے کافی ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد جہاں ایک نعمت ہے وہیں نوجوانوںمیں بے راہ روی پھیلانے میں بھی نمبرون ہے۔
بالکل اسی طرح طب جدید یعنی ایلوپیتھی طریقہ علاج سائنس کی کرشمہ سازیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بظاہر فوری اثرا دویات انسان کو اپنا گرویدہ کردیتی ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس کے مابعد اثرات نئے امراض کو جنم دے دیتے ہیں تو انسان کی آنکھ کھلتی ہے کہ خدایا یہ کیا ہوگیا؟ مثال کے طور پر ایلوپیتھی میں آپریشن کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بس ذرا سی تکلیف کیا ہوئی فوراً مریض کو آپریشن کا مشورہ داغ دیا جاتا ہے۔ چاہے مرض دوائی سے قابل علاج ہی کیوں نہ ہو مگراکثر نام نہاد مسیحاؤں کے پاس پیسے بٹورنے کا اور حل بھی تو نہیں ہوتا۔
پچھلے دنوں کی بات ہے میں ملتان اپنے دوست سے ملنے گیا اور باتوں باتوں میں آپریشن کی بات چل نکلی‘ وہ کہنے لگا کہ ہمارے ایک دوست کو ناف کے دائیں جانب شدید درد ہوا‘ ہم اس کوفوراً ایک پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر کے پاس لے گئے‘ ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ اس کو اپنڈکس ہے‘ فوراً آپریشن کرائیں ورنہ مریض کی جان جاسکتی ہے۔ خیرمرتا کیا نہ کرتا والی بات کے مصداق فوری طور پررقم کا بندوبست کیا اور آپریشن کر ڈالا۔ مریض کو تین دن بعد گھر لے آئے۔ حالات معمول پر آگئے۔ درد رفوچکر ہوگیا اور ہم فکر سے آزاد ہوگئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہو کہ وہی دونوں دوست اپنی موٹرسائیکل پر نشتر روڈ کسی کام سے گئے تو اس مریض کو پھر ناف کے قریب یعنی اپنڈکس والی جگہ پر درد ہوا۔ اس نے کہا کہ چلو نشتر ہسپتال سے ہی چیک اپ کروا لیتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کے پاس گئے انہوں نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ بھائی ان کو اپنڈکس کا درد ہے‘ ہم نے بہت کہا کہ ڈاکٹر صاحب اپنڈکس کاپہلے سے آپریشن ہوچکا ہے اب جبکہ اپنڈکس والی نالی ہی موجود نہیں تو اپنڈکس کہاں؟ مگر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فوراً ایکسرے کراکے لائیں‘ پھر بتاؤنگا۔ لاچار ایکسرے کرایا‘ ایکسرے دیکھ کر تو ہماری سیٹی ہی گم ہوگئی کہ اپنڈکس جوں کی توں موجود ہے اور پھولی ہوئی ہے‘ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ اصل ماجرا کیا ہے جبکہ آپریشن کا نشان تو بالکل واضح طور پر اب بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بغور دیکھنے کے بعد بتایا کہ بلیڈ سے جلد کے اوپر کٹ دیکر سی دیا گیا ہے۔ یہ کٹ زیر جلد ہوا ہی نہیں۔ بس مریض کو درد روکنے والی دوائیں دیکر فارغ کردیا گیا ہے جس سے وقتی طور پر افاقہ محسوس ہوا ہے۔ لہٰذا اب آپریشن کرنا پڑے گا۔ خیر ہم نے آپریشن کرایا کیونکہ مجبوری تھی اور ٹھیک پانچ دن بعد ہم نے اُس نام نہاد جعلی ڈاکٹر کا بھی آپریشن کیا اور اسے وہاں سے کلینک بند کرنے پر مجبور کردیا اور اس سے اپنے پیسے بھی واپس لے لیے۔
تو جناب یہ ہے اصل چہرہ۔۔۔نام نہاد مسیحاؤںکا۔۔۔ یہ ہر علاقے میں کہیں نہ کہیں اپنی دکان چمکارہے ہیں اور اصل مسیحاؤں کا نام بھی بدنام کررہے ہیں۔ان لوگوں کے دل میں خوف خدا کا ذرہ بھی نہیں ہے۔
یقین جانیے! یہ لوگ نوے فیصد آپریشن بلاوجہ کرتے ہیں صرف دس فیصدکیسز میں آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح آپریشن کے بعد بعض اوقات اتنی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ مریض کوجان کے لالے پڑجاتے ہیں اور اگر وہ جانبر ہو بھی جائےتو ساری زندگی سسک سسک کرگزارتا ہے۔ اسی طرح اسے مہینوں دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔کچھ ہمارے ڈاکٹرز حضرات مریض کو ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ مختلف لیبارٹریوں کے ٹیسٹ بھی آپس میں نہیں ملتے ‘ کوئی کچھ لکھتا ہے‘ دوسرا کچھ‘ یوں مریض ساری مختلف ادویات کھا کھا کر گزارہ کرتا ہے۔
آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا یسا کیوں ہے اور میڈیکل شعبہ میںادویہ انحطاط کیوں ہے؟ جدید ترین علاج دریافت ہونے کے باوجود کلینک اور ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے کیوں ہیں؟نیلے پیلے کیپسول اور گولیاں بے دھڑک کیوں استعمال ہورہے ہیں۔ اس کا جواب شاید اتنا مشکل بھی نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے قدرت خداوندی کو بھلا دیا ہے اور ہم فطرت سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ہم نے ہر چیز مصنوعی اختیار کرلی ہے قدرتی چیز سے دور ہوگئے ہیں۔فطری طریقہ علاج یعنی دیسی طریقہ علاج کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید بازاری قسم کے نسخہ بار حکیم اور عطائی حضرات بھی ہیں جنہوں نے اس شعبے کو بہت بدنام کردیا ہے ان کے پاس تشخیص تو ہوتی نہیں بس علامت دیکھی اور دوا دے دی۔ دوسری وجہ کشتوں کابے دریغ استعمال بھی عوام کو متنفر کررہا ہے اور تیسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دیسی طریقہ علاج کو جدید دور کے مطابق ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ اس پر جدید ریسرچ نہیں کی گئی‘ بس روایتی نسخوں پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ اس کو جدید دور کے مطابق ڈھالا جاتا تاکہ یہ فطری اور سستا طریقہ علاج عوام کی بہبود میں اپنا فعال کردار ادا کرسکتا۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم ابھی تک طب یونانی کا کوئی مصدقہ فارما کوپیا نہیں بناسکے۔ جہاں جہاں دیسی طریقہ علاج رائج ہیں لوگوں کے پاس بعض امراض کے تیربہدف نسخہ جات موجود ہیں مگر وہ دوسرے طبیب کو دینے پر تیار نہیں اور اس کو ایسے چھپاتے پھرتے ہیں جیسے ناپاک کپڑے کو۔ حالانکہ باقاعدہ مہم کے ذریعے ان کو قائل کرکے نسخے لیے جاسکتے ہیں مگر شاید ہم خود بھی اس کیلئے مخلص نہیں۔
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تحریک کے مطابق دی گئی صرف غذا ہی مرض پر قابو پانے کیلئے کافی ہے جبکہ فرنگی طب میں غذا کا تصور سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ صرف اور صرف دوا پر زور دیتی ہے اوراینٹی بائیوٹک اور انٹی سپیٹک دواؤں کے علاوہ مسکن اور نشیلی دواؤں سے مریض پر یلغار کردی جاتی ہے اور ایک دن میں دس دس بارہ بارہ کیپسول اور گولیوں کے علاوہ مختلف سیرپ مریض کے حلق میں انڈیلنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر نتیجہ پھر بھی ڈھاک کے وہی تین پات والا نکلتا ہے اور
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔
کے مصداق مریض بجائے شفایاب ہونے کے مزید پیچیدہ بیماری سے دوچار ہوجاتا ہے۔ میں نے بارہا ایسے مریض دیکھے ہیں جو ایک مرض کا علاج کراتے کرتے دوسری مرض بھی تحفہ میں لے آتے ہیں مثلاً ایسے مریض کوجوڑوں کا درد تھا ان کو طب فرنگی والوں نے مسکن دوائیں دے دے کر جگر کا مریض بنادیا اس کے علاوہ السر معدہ کی شکایت بھی عام دیکھی گئی اسی طرح جن مریضوں کو اینٹی ملیرئیل دوا دی گئی ان میں بھی اسی فیصد مریض امراض جگر کے متاثر دیکھے گئے ۔
جبکہ طب یونانی یعنی دیسی طریقہ علاج ان کے جراثیمی قانون کو تسلیم تو کرتا ہے مگر یہ سمجھتے ہوئے کہ جس جگہ جراثیم پیدا ہوں گے پہلے وہاں تعفن یا عفونت کا ہونا ضروری ہے یعنی ڈائریکٹ کہیں بھی جراثیم پیدا نہیں ہوجاتے بلکہ ان کے پیدا ہونے کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں اسی طرح جراثیم پیدا ہوتا جس سبب سے ہو اس سبب کو اگر ختم کردیا جائے تو جراثیم خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ اسی لیے دیسی طب میں اخلاط کو مدنظر رکھ کر علاج کیا جاتا ہے اگر عفونت زدہ خلط کا علاج کرلیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والے تمام امراض کا خاتمہ ہوجائے گا اور مریض تندرست ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ طب یونانی فطری اور سستا ترین طریقہ علاج ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں اس کا وجود نعمت باری سے کم نہیں اور سب سے بڑی بات کہ دیسی ادویات کے سائیڈ ایفکٹس کوئی نہیں ہیں۔ صدیوں پہلے سے مروجہ دیسی مرکبات آج بھی اسی طرح مستعمل اور مؤثر ہیں۔
دیسی طریقہ علاج فطرت کے قریب ترین طریقہ علاج ہے‘ اسی لیے اس میں شفائی اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ملکی اور مقامی سطح پر بیشتر جڑی بوٹیوں میں خداوند عالم نے بے پناہ شفائی اثرات رکھے ہیں اگر مرض کو سمجھ کر دیسی دوا دی جائے تو پہلی خوراک ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔
آنحضرت ﷺ جو کہ طبیب اعظم ہیں ان سے کئی روایات اور احادیث منقول ہیں جن میں آپ ﷺ نے دیسی جڑی بوٹیوں اور گھریلو استعمال میں ہونے والی غذاؤں مثلاً انڈا‘ شہد اور زیتون جیسی چیزوں کو مختلف امراض میں استعمال کرایا اور اس طریقہ علاج کے فطری ہونے پر مہرثبت کرتے اور اپنی مرض کا کوئی پہلو اس سے چھپا کر نہ رکھے اور معالج کی ہدایات کے مطابق غذا اور دوا کا استعمال کرے تویقیناً شفایابی اس کا قدم چومے گی۔
گھیگوار کے کرشمے
(ظاہر خان‘حیدرآباد)
شوگر کے مریض اگر گھیگوار کے گودا پانی میں ڈال کر وہ پانی استعمال کریں اور اس کے ساتھ دوا کے طور پر پنساری کی دکان سے مامروت ایک بوٹی کے پھل ہیں جیسے پودوں کے اوپر سونڈی کیڑا ہوتا ہے اس شکل کا ہوتا ہے وہ مامروت کو 200 گرام لے کر پیس لیں اور پانی کے ساتھ صحیح دوپہر‘ شام کھانا کھانے کے بعد ایک چمچہ استعمال کریں‘ انشاء اللہ چالیس دنوں کے اندر ہی اللہ پاک شوگر سے شفاء دے دےگا ہر ہفتے اپنا چیک اپ کرتے رہیں آپ کو خود فائدہ معلوم ہوگا اور مریض کا لبلبہ بالکل صحیح طور پر کام شروع کردے گا اور اس کے علاوہ بیماری سے جو کمزوری ہوگئی ہے وہ کمزوری بھی دور ہوجاتی ہے جسم میں طاقت بھی آجاتی ہے۔ اگر مریض جلدی صحت یاب ہوجائے تو پھر بھی نسخہ پورے چالیس دن یا دو ماہ استعمال کریں تاکہ ہمیشہ کیلئے ان امراض سے فائدہ مل جائے۔ا نشاء اللہ۔
اگر کسی شخص کو بیرونی کینسر ہوئے‘ سگریٹ‘ مین پوڑی یا گٹکا کھانے سے تو وہ حضرات بھی صبح سویرے فجر کی سنت پڑھنے کے بعد سات بار درودشریف‘ اکتالیس بار سورۂ فاتحہ آخر میں پھر درودشریف پڑھ کر گھیگوار کے گودے اور پسی ہوئی مامروت پر پھونک دیں‘ پھر فجر کے فرض نماز پڑھ لیں ‘ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اول و آخر طاق دفعہ درودشریف درمیان میں ایک سو ایک دفعہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یَاسَلَامُ پڑھ کر پھونک دیں اور گھیگوار کو درمیان سے دو ٹکڑے پہلے سے کرلیں اس پر پسی ہوئی مامروت ڈال کر کینسر کے زخم یا دانے پر رکھ کر اوپر سے کسی پلاسٹر یا پٹی سے چپکادیں یا کپڑا باندھ لیں۔ انشاء اللہ اکتالیس دنوں میں کینسر بالکل زخم ہو یا دانہ بالکل سوکھ کر ختم ہوجائے گا اور اگر اندرونی کینسر ہو تو پھر صبح گھیگوار کا گودا کا دانہ یعنی تقریباً ایک چھٹانک گھیگوار کا گودا ایک چمچ پسی ہوئی مامروت صبح خالی پیٹ‘ دوپہر کھانے سے پہلے ایک خوراک‘ اور رات کو کھانے کے بعد سونےسے پہلے ایک خوراک پانی کے ساتھ کھائیں یعنی مٹکے کا پانی اور اس میں بھی گھیگوار کا گودا ڈال دیں انشاء اللہ دو ماہ کے اندر ہی سخت سے سخت کینسر‘ شوگر‘ معدے کا زخم‘ سوجن‘ ورم‘ بچہ دانی کی سوجن ورم‘ زخم‘ بچہ دانی کا کینسر‘ بچہ دانی کے منہ پر چربی اور بچہ دانے کے منہ کے اوپر جو کیڑا ہوتا ہے اور مرد کے نطفے کو کھاتا ہے وہ کیڑا بھی مرکر ختم ہوجاتا ہے اور بچہ دانی یا معدہ بالکل صحیح تندرست ہوجاتا ہے اور کمزوری بھی دور ہوجاتی ہے اس طرح جسم کے اندر معدہ‘ جگر کسی بھی جگہ میں زخم ہو‘ کینسر ہو وہ ختم ہوکر اللہ پاک بادشاہ اس نسخے کی بدولت مکمل شفاء دیتا ہے ہم نے کئی مریضوں پر آزمایا ہے اللہ رب العزت نے انہیں مکمل شفاء دی ہے۔
گھیگوار کا حلوہ
ھوالشافی: گھیگوار کا گودا ایک کلو‘ خالص دودھ دو کلو‘ گائے کا مکھن یا گھی خالص گائے کا گھی آدھا کلو‘ مصری یا نمک حسب خواہش اگر میٹھا کرنا ہے تو مصری ‘ اگر نمکین کھانا ہے تو نمک ڈال دیں‘ بادام آدھا پاؤ‘چار مغز آدھا پاؤ‘ پستہ آدھا پاؤ‘مغز اخروٹ آدھا پاؤ‘ کاجو آدھا پاؤ‘ مغز چلغوزہ آدھاپاؤ۔
ترکیب تیاری: مٹی کی ہانڈی یا تانبے کی یا اسٹیل کی ہانڈی میں ایک کلو گھیگوار کا گوداڈال دیں‘ دو کلو خالص دودھ بکری کا ملے تو بہت بہتر ہے‘ ورنہ گائے کا خالص دودھ ڈال دیں اور آگ رکھ دیں مگر آگ زیادہ تیز نہ ہو‘ پھر چمچے سے مسلسل ہلاتے رہیں کچھ دیر کے بعد دودھ سارا گودے میں جذب ہوکر مادہ بن جائے گا پھر ہانڈی میں گائے کا خالص گھی یا مکھن ڈال دیں اور باقی مغزیات کو چھوٹا چھوٹا کُتر دیں اور وہ سب مغزیات بھی ہانڈی میں ڈال دیں‘ مغزیات کو پیسنا نہیں‘ صرف چھوٹا چھوٹا کاٹ کر ڈال دیں اور چمچ سے مکس کردیں اور ہانڈی کو آگ سے نیچے اتار کر ٹھنڈا ہونے دیں‘ جب ٹھنڈا ہوجائے توکسی مرتبان یا مٹی کی ہانڈی میں رکھ دیں۔ صبح نہار منہ یعنی خالی پیٹ ایک چمچہ بڑا سائز چائے والا دودھ اور ایک پاؤ یا ایک گلاس دودھ کے ساتھ نوش فرمائیں۔ ایک چمچہ دوپہر کھانے سےپہلے‘ ایک چمچہ شام کھاناکھانے سے پہلے یا رات کو سونے سے پہلے دودھ کے ساتھ استعمال کریں۔
فوائد: مردوں کا جریان و احتلام ختم کرتا ہے‘ مثانے کو طاقت دیتا ہے‘ پرانے جوڑوں اور کمر کے درد اور جسمانی دردوں کو ختم کرتا ہے اور ان میں طاقت پیدا کرتا ہے۔ کمزور انسان کو بچہ ہو یا جوان ہو‘ عورت ہو‘ ا ن میں طاقت پیدا کرتا ہے۔ کمزور انسان کو بچہ ہو یا جوان ہو‘ مرد ہو یا عورت ہو ان میں طاقت پیدا کرتا ہے۔ مادہ تولید کو وافر مقدار میں پیدا کرتا ہے اور گاڑھا اور سخت کرتا ہے ‘ وافر مقدار میں خون پیدا کرتا ہے‘ پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرتا ہے جگر اور معدہ کو طاقت دیتا ہے۔ جسم میں کینسر‘ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے۔
اندرونی زخموں کو ٹھیک کرتا ہے‘ دماغ کو طاقت دیتا ہے‘ جسم کے جوڑوں میں مادہ تولید پیدا کرتا ہے‘ بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت کے اندرونی زخموں اور کمزوری کو ختم کرتا ہے۔ جسم سے گندے جراثیم کا خاتمہ کرتا ہے اور جسمانی فالتو چربی کو ختم کرتا ہے‘ آپریشن کے بعد کی کمزوری کو دور کرتا ہے‘ گردن کو طاقت دیتا ہے‘ ہاتھ پیر کانپتے ہوں تو وہ بھی ختم کرتا ہے۔ اس حلوہ کے بڑے فائدے ہیں انشاء اللہ جو بنا کرکھائے گا مزید فائدے حاصل کرے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں