(محمد عثمان ترک‘ ملتان)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں ماہنامہ عبقری لاہور کا اندازاً 2007ء سے قاری ہوں۔ اتنا شاندار رسالہ ہے کہ جو بھی گھر میں پڑا دیکھتا ہے مطالعہ کرنے کیلئے ساتھ لے جاتا ہے اوربعد میںاس کا مستقل قاری بن جاتا ہے۔ مجھے تو ہر ماہ ایک رسالہ پڑھ کر اگلے شمارے کا انتظار رہتا ہے۔ آپ کا یہ رسالہ صدقہ جاریہ ہے جس نے بھی اسے ذرا توجہ دلچسپی سےپڑھا ہے انشاء اللہ امید ہے کہ اس کی ضرور اصلاح و تربیت ہوئی ہوگی‘ انشاء اللہ یہ قیامت تک چلتا رہے گا آمین! کچھ عرصہ قبل میرے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا۔
میں انکم ٹیکس ملتان میں ملازم ہوں‘ پارٹ ٹائم جنرل سٹور کرتا تھا‘ ایک رات کو میں دس بجے سٹور بند کرکے گھر گیا‘ میری بیوی اور میرا بیٹاعمر 13 سال چھت سے سیڑھیوں کے ذریعہ کپڑے لینے گئے جو کہ چھت پر سوکھ رہے تھے۔ میرا دوسرا بڑا بیٹا بعمر 15 سال اور چھوٹی بیٹی ایک کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ میں دفتر جانے کی تیاری کیلئے رات کو ہی کپڑے خود ہی استری کرلیتا ہوں اور جوتے بھی پالش خود ہی کرتا ہوں تاکہ صبح میری بیگم کو پریشانی نہ ہو۔
سیڑھیوں کے ساتھ ہی برآمدے میں میں اپنے جوتے پالش کررہا تھا کہ چھت سے میری بیوی اور بیٹے نے آواز دی کہ نیچے سیڑھیوں کے پاس لمبا موٹا سانپ ہے۔ میں اور میرے بچے چونکہ ہم نیچے ہی تھے ہم دوڑ کر باہر آئے تو دیکھا کہ میری بیوی اور بیٹا سیڑھیوں پر کھڑے ہیں اور نیچے سیڑھیاں ختم ہونے والی جگہ پر تقریباً پانچ فٹ لمبا اور تقریباً موٹائی پانچ تا آٹھ انچ ہوگی‘ براؤن دھاری دار رنگ میں گول ہوکر پڑا ہے۔ میرے بیٹے نے کہا کہ یہ جن ہے سانپ نہیں ہے‘ اسے کچھ مت کہیں۔ میری بیوی اور بیٹا اوپر سیڑھیوں پر پریشان کھڑے تھے۔ کیونکہ وہ نیچے بھی نہیں اتر سکتے تھے اور ڈر تھا کہ کہیں سانپ سیڑھیاں نہ چڑھ جائے۔ ہم نے گھر میں ہی سکول بنایا ہوا ہے اور قریب ہی ڈیسک اور کرسیاں وغیرہ پڑی تھیں اگر یہ سانپ گھر میں کہیں چھپ گیا تو صبح بچوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ میں اپنے گھر میں ہمیشہ سے ہی ایک بانس تقریباً سات تا دس فٹ لمبا ضرور رکھتا ہوں۔ وہ تقریباً پچاس گز کے فاصلہ پر تھا۔ بچوں نے اور میں نے کافی باتیں کیں مگر سانپ نہ ہلا۔۔۔ لائٹ جل رہی تھی‘ سب اسے دیکھ رہے تھے مگر میں بھاگ کر وہ بانس لایا اور سوچ سمجھ کر‘ دیکھ بھال کر سانپ پر بانس کا ایک زوردار وار کیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر وارخطا گیا تو یہ بھاگ کر کہیں چھپ نہ جائے یا کسی پر وار کرکے کاٹ نہ لے۔ میرا وار اس کی کمر کے درمیان میں لگا سانپ اچھلا۔۔۔ میں نے دوسرا وار اُس کے سر پر کیا۔ اس کے منہ سے عجیب و غریب چیخ نکلی جیسے انسانوں کے منہ سے نکلتی ہے‘ غالباً اُس سے وہ مَرگیا۔ مگر وہاں اس کے منہ سے اور جہاں میں نے مارا وہاں سے بہت زیادہ خون نکلنا شروع ہوگیا جس سے ہمارا پورا فرش بھرگیا‘ اس سے پہلے بھی کئی سال پہلے میں نے کئی سانپوں کو مارا ہے‘ یا دوسروں کو مارتے دیکھ چکا ہوں ان سے کبھی خون نہیں نکلتا تھا۔ اتنا زیادہ خون سانپ سے نکلتا دیکھ کر میں بہت زیادہ ڈر گیا۔ اس کے بعد میرے بیٹے نے بھی ڈنڈے کے چند وار اس پر کیے‘ اس کے منہ سے کچھ دیر عجیب و غریب آوازیں نکلتی رہیں پھر وہ بے جان ہوگیا۔ پھر میں نے وہ جگہ پانی سے دھودی اور سانپ کو باہر جاکر دفنا دیا تاکہ صبح سکول میں جب بچے آئیں تو وہ خوفزدہ اور پریشان نہ ہوں۔میرے دماغ میں ابھی تک یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ سانپ تھا یا جن۔۔۔ کیونکہ سانپ کے منہ سے کبھی ایسی آوازیں میں نے نہیں سنیں اور نہ ہی کبھی سانپ کا اتنا زیادہ خون دیکھا ہے۔۔۔ ہم نے سانپ کو مارنے سے پہلے کافی دیر آوازیں لگائیں اس کو چھیڑا مگر وہ وہاں سے بھاگا کیوں نہیں۔۔۔؟؟؟ جب میری بیوی اور بیٹا چھت پر گئے تو لائٹ جل رہی تھی اور وہ نیچے اردگرد کہیںکچھ نہیں تھا صرف دو یا تین منٹ بعد وہ اچانک سیڑھیوں کے پاس گول ہو کر کیوں پڑا رہا۔۔۔؟؟؟ صاف ستھرے گھر (سکول) میں جہاں ہر وقت بچوں کا رش رہتا ہے آج تک وہاں کبھی سانپ نہیں آیا حتیٰ کہ ہمارے محلے میں بھی کبھی سانپ نہیں نکلا اچانک اتنا بڑا سانپ کیسے نمودار ہوگیا۔۔۔؟؟؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں