جو میں نے دیکھا سنا اور سوچا
اعتراض سے سے ناموری اور ترقی کا خاتمہ
ایڈیٹر کے قلم سے
قارئین! اعتراض زندگی کا ایک ایسا انداز ہے جس سے انسان بڑی بڑی نامور ترقی اور کمال سے دور ہو جاتا ہے۔ اللہ کی مخلوق نامعلوم کس حال میں ہے؟ کون کیسے اور کس طرح زندگی گزار رہا۔۔۔؟ کون اللہ کی نگاہ میں بُرا یا اچھا۔۔۔؟ ہم کیسے فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔۔؟
اعتراض سے مراد یہ ہے کہ جو میں کہہ رہا وہ درست ہے اور اللہ کی بناوٹ میں (نعوذ باللہ) کچھ فرق ہے‘ اعتراضات سے انسان بعض اوقات اپنے سچے اور گہرے دوستوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ نظام عالم میں ہمیں بے شمار ایسے واقعات ملیں گے جس سے پتہ چلے گا کہ اعتراض کرنے سے انسان آخرت کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا لیکن دنیا کی کتنی ایسی ترقیاں ہیں جس سے وہ ناکام ہوجاتا ہے۔ جس دور میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ دور شاعری کے عروج کا دور تھا اور اس دور میں دہلی شعرو شاعری کا ایک مرکز تھا‘ علامہ اقبال کی شاعری جب مختلف جرائد اور رسائل میں چھپنے لگی میں ان رسائل کا نام نہیں لیتا جنہوں نے باقاعدہ اقبال کی شاعری کے خلاف لکھنا شروع کیا اور مسلسل لکھتے رہے لیکن اقبال نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اقبال کا انداز مثبت اور اصلاحی تھا۔ اس کے مقابلے میں اسی دور میں بہت بڑے بڑے شاعر لیکن جو اعتراضی اور تنقیدی مزاج رکھتے تھے حالانکہ ان کی شاعری کا مقام اور مرتبہ اقبال سے بہت اونچا تھا لیکن وہ گمنامی کی وادی میں ایسے کھوئے کہ لوگ انہیں جانتے نہیں اور اقبال ناموری اور شہرت کے عروج پر ایسے پہنچے کہ بچہ بچہ اقبال کو جانتا ہے‘ یہ سب ترقی کی بنیاد صرف اور صرف اُس تنقید اور اعتراض کو برداشت اور معاف کرنا تھا اور یہ اقبال کا مزاج تھا اور شیوہ تھا اور اقبال تنقید اور اعتراض کو معاف کرتا تھا اور اس نے اپنی شاعری میں تنقیدی انداز اختیار نہیں کیابلکہ اصلاحی انداز اختیار کیا۔حکیم نوردین بھیروی مہاراجہ کشمیر کا ذاتی اور شاہی معالج تھا‘بہت زیادہ باکمال تھا لیکن ایک چیز جس نے اسے دین محمدی ﷺ سے ہٹا دیا وہ چیز اعتراض تھی اور اعتراض نے اس کی زندگی کو گھن کی طرح کھوکھلا کردیا۔ وہ ہر کسی پر اعتراض کرتا تھا‘ ایک صاحب کمال نے سالہا سال کے تجربے اور مطالعہ کے بعد ایک چیز کہی جو کہ سونے کی سیاہی سے لکھنے کے قابل ہے ’’تنقید سے توفیق چھن جاتی ہے‘‘ یعنی تنقید کرنے سے ترقی ‘کمال‘ کامیابی‘ عزت اور عظمت‘ شان و شوکت سب چیزوں کی توفیق چھن جاتی ہے۔ قارئین! اپنی زندگی کو اعتراض اور تنقید سے دور رکھیں۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور ملے گی جس سے اس کی خوبیاں نظر آئیں گی۔ ہماری نظر خوبیوں پر ہو‘ کمیوں پر نہ ہو۔آپ کو اپنے ایک دوست کا عبرتناک واقعہ سناتا ہوں: موصوف کا مزاج بس ہرلمحہ اعتراض ہی اعتراض اور ہر کسی پر‘ لفظوں پر‘ شخصیات پر‘ دین و دنیا کی ہر چیز پر اعتراض۔۔۔ خوب ہنستے اور ہنساتے ۔۔۔پہلے کسی اور مسلک سے تعلق تھا پھر کہنے لگے وہ میرا مسلک کفر تھا۔۔۔ پھر کہیں اور آگئے۔۔۔ پہلے بھی اعتراض تھا اور موجودہ بھی اعتراض۔۔۔ میں ان کو محبت پیار سے سمجھاتا پھر مجھ پر بھی اعتراض آخر کار… احتیاطاً میں ان سے کنارہ کش ہوگیا لیکن ان کو وہاں بھی قرار نصیب نہ ہوا پھر ایک تیسرا مسلک اختیار کیا اور وہاں بھی وہی اعتراض۔۔۔ میں نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا ۔میں ایک دفعہ اپنے گھر کے قریب گلی سے جارہا تھا اچانک موڑ پر ان سے ملاقا ت ہوئی‘ اعتراضات کی ایک انوکھی بارش‘ میں خاموش رہا اور میں نے ان کا احترام کیا ‘ابھی کچھ عرصہ پہلے موصوف عین عالم جوانی میں فوت ہوگئے۔ اعتراضات کے ایک انوکھے باب کو چھوڑ کر اور اعتراضات کی ایک انوکھی کہانیاں چھوڑ کر کیونکہ انہیں اس مسلک میں بھی قرار نہیں آیا۔ میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اللہ بڑا غفور الرحیم ہے اور کریم ہے‘ بہرحال اعتراض نے ان کی زندگی میں اتنی مشکلات پیدا کیں کہ میری عقل پریشان ہے۔کیوں نہ۔۔۔!!! اپنی زندگی کو اعتراض سے بالکل پاک کردیں۔ میں ایک اللہ والے کی خدمت میں بیٹھا تھا مجھے ایک انوکھی نصیحت کی ‘فرمانے لگے: اللہ کے بندوں کے معاملے اللہ کے سپرد کردو‘ ان کا پیچھا نہ کر‘ نامعلوم کس کا معاملہ اللہ کے ہاں کیا ہے؟ مجھے ایک عظیم شخصیت کی بات یادآئی ‘کسی سے ملاقات کیلئے تشریف لے جارہے تھے‘ راستے میں کسی نے کہا کہ جس سے ہم ملنے جارہے وہ ہرپل ہر کسی پر اعتراض کرتا ہے‘ فرمانے لگے: واپس چلو ملاقات تو نہیں کروں گا لیکن دعائیں ضرور کروں گا کیونکہ اعتراضات سے کہیں اس کا مزید نقصان نہ ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں