خوش باش اور تربیت یافتہ بچے ہی مُلک کے ہشاش بشاش اور مفید شہری بن سکتے ہیں۔ بچے کے لیے کھیل کُود اتنا ہی ضروری ہے جتنی ایک پودے کیلئے سورج کی روشنی اور گرمی‘ کھیل کُود اور سیروتفریح سے بچوں کی نشوونما ہوتی ہے
کسی نے خوب کہا ہے بچے کی پیدائش مسرت کی افزائش ہے اگر تمام والدین یہ نکتہ سمجھ لیں کہ بچے خوشی اور مسرت کے خزانے لے کر پیدا ہوتے ہیں تو ہر مقام پر بچوں سے پیش از پیش محبت کی جانے لگے بلکہ عام انسانوں کی خوشیوں میں بھی اضافہ ہوجائے۔بہت کم والدین کو اس مقدس امانت کا احساس ہے‘ کتنے ہی ماں باپ ایسے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو بے رحمی سے پیٹتے ہیں‘ کئی تو یہ خیال کرتے ہیں کہ بچوں سے زیادہ خود اُن کے ذاتی وجود کی نگہداشت ضروری ہے حالانکہ بچوں کی تربیت اور تعلیم اپنی ذات کی نگہداشت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ والدین پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری سے کما حقہ عہد برآ ہونے کی کوشش کریں۔ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت مناسب اور ٹھیک طریقے سے کی جائے تو وہ بھاری رقوم جو مجرمین کے مقدموں‘ جیل خانوں پر خرچ ہوتی ہیں بچ جائیں۔ انہیں نکمے اور بیکار بننے کی مہلت دینے کے بجائے مفید کاموں میں لگادیا جائے تو ان کی صلاحیتیں آمدنی میں منتقل کی جاسکتی ہیں کیونکہ مفید اور کارآمد شہری ہی قوم کے لیے دولت و ثروت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر شروع سے بچوں کی تعلیم و تربیت جدید اور ترقی یافتہ طریقوں پر کی جائے توملک میں بے مصرف لوگوں کا وجود ہی نہ رہے۔
خوش باش اور تربیت یافتہ بچے ہی مُلک کے ہشاش بشاش اور مفید شہری بن سکتے ہیں۔ بچے کے لیے کھیل کُود اتنا ہی ضروری ہے جتنی ایک پودے کیلئے سورج کی روشنی اور گرمی‘ کھیل کُود اور سیروتفریح سے بچوں کی نشوونما ہوتی ہے اور اس قدرتی غذا پر وہ بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں‘ مشفق اور مہربان ماں باپ کے دل کی روشنی اور محبت نشوونما میں بہت مدد دیتی ہے۔
ہنس مکھ بچے مفید شہری بنتے ہیں: بچوں کو گھر سے باہر نہیں بلکہ گھر کے اندر بھی کھیل کُود کی اجازت ہونی چاہیے‘ دیکھا گیا ہے کہ اکثر گھروں میں بہت سنجیدگی برتی جاتی ہے بچوں کو اپنی خوشی اوردلجمعی سے کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا اگر اُن کی یہ فطری خواہش دبانے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ والدین کو کم از کم اس حد تک تو اُن کی خوشی کا خیال رکھنا چاہیے جو اُن کے اختیار میں ہو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب وہ عملی دنیا میں قدم رکھیں گے اور انہیں وہاں ناکامیوں اور تکلیفوں کا سامنا ہوگا تو وہ ہنسی خوشی ان کا مقابلہ کرسکیں گے۔اس کے علاوہ اگر بچوں کو خوش و خرم رہنے کا موقع دیا جائے تو وہ چپ چاپ گم صُم اور دبے دبے رہنے کے بجائے والدین کے ممدو معاون ثابت ہوں گے اور بہتر شہری بنیں گے۔بچپن کی حوصلہ شکنی سے ناکامیاں جنم لیتی ہیں: آپ کے آس پاس کئی ایسے غریب اوربدنصیب ہوں گے جو اپنی ناکامیوں اورمایوسیوں کی وجہ بچپن کی حوصلہ شکنی قرار دے سکتے ہیں اگر بچے کو ہر وقت جھڑکیاں دی جائیں‘ آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے اور بات بات پر ٹوکا جائے تو اس کے والدین کبھی اسے لائق و فائق نہیں بناسکتے۔ جن بچوں کو ہروقت کوسا جاتا ہے اور ان کی ذات میں چن چن کر عیب نکالے جاتے ہیں ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کھوبیٹھتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی خودداری سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔دن رات اُن کے کانوں میں جب ایک ہی آواز پڑتی ہے تو وہ یقین کرلیتے ہیں کہ وہ حقیقت میں بالکل نکمے ہیں۔ اُن کی کوئی عزت ہے اور نہ کسی کو ان کی کوئی ضرورت۔ بچے کو ہر وقت نکما اور ناکارہ کہنے سے وہ اس قدر بددل ہوتا ہے کہ آخرکار بے پروا ہوجاتا ہے اور مقدور بھر کوشش کرنے سے گریز کرتا ہے۔اس سے اس کی ہمت اور جرأت کو ایسا دھکا لگتاہے کہ عمر بھر کیلئے اس کی ترقی رک جاتی ہے۔بعض ماں باپ بچے سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں ’’جلدی کرو‘ سُست اور نکمے لڑکے‘ تم بیوقوف اور کام چور ہو‘ میں کہتا ہوں تم کبھی کچھ نہیں کرسکوگے‘‘ اس طرح کی باتوں سے بچے کی فطری استعداد تباہ ہوجاتی ہے اور یہ ایک مجرمانہ فعل ہے کیونکہ بچے آپ کی باتوں سے خیال کرنے لگے کہ وہ دنیا میں کبھی کچھ بن کر نہیں دکھاسکے گا۔ کئی والدین بچوں کے سامنے ملاقاتیوں سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا لڑکا بالکل نکما اور کام چور ہے۔ یوں کہتے ہوئے ان کو بالکل احساس نہیں ہوتا کہ بچے کے دل سے یہ الفاظ کبھی نہیں مٹ سکتے جو الفاظ بچپن میں بچے کے دل و دماغ پر نقش کردئیے جاتے ہیں۔ اس کی عمر کےساتھ ساتھ ان کا تاثر گہرا ہوتا رہتا ہے۔
بچوں کی حوصلہ افزائی کیجئے: بچوں کی نشوونما کا انحصار زیادہ تر تحسین اورشاباش ملنے پر ہے‘ اگر ان کے کام کی تعریف کی جائے تو وہ زیادہ دل لگا کر کام کرتے ہیں جو والدین یا اساتذہ بچوں پر بھروسہ رکھتے‘ ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی مدد کرتے ہیں‘ بچے بھی اُن پر جان چھڑکتے ہیں مگر ناقدری حقارت کی نگاہ پڑنے سے وہ دل شکستہ ہوجاتے ہیں اور بات بات پر جھڑکیوں سے اُن کی مسرت اور شادمانی کا آسمان بہت جلد تاریک ہوجاتا ہے۔اگر کسی بچے میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں پائی بھی جائیں تو ہر وقت ان کی یاد نہیں دلانی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ بچے کی خوبیوں اور اچھائیوں کو دیکھیں اور انہی کے متعلق بات چیت کریں۔ اس کی ایسی خامیوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو جو نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہوں تو یہ کام ایسے احسن طریقے سے کیا جائے کہ بچہ ہرگز کسی احساس کا شکار نہ ہو۔ انسان کی فطرت دشمنی‘ حقارت‘ نکتہ چینی اور ڈانٹ ڈپٹ کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور خوش خلقی اور شریں کلامی سے تعاون پر مائل ہوتی ہے۔
اساتذہ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو ان کی غلطیوں پر جھاڑ پلانے کے بجائے یہ کہہ کر ہمت اور جرأت دلائیں کہ تمہاری تخلیق ناکامی اور مایوسی کیلئے نہیں بلکہ کامیابی اور مسرت کے لیے ہوئی ہے۔ انہیں بتانا چاہیے کہ تم کوشش سے یہ کام کرسکتے ہو اور تمہاری اصلاح بھی ہوسکتی ہے۔ والدین کو بچے کے دل و دماغ میں دہشت کے بجائے ہمت و جرأت اور شک کی جگہ خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے۔ اگر وہ اس طریقے پر عمل کریں گے تو تھوڑے ہی دنوں میں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ بچے کے ارادوں میں امنگوں میں انقلاب رونما ہوگیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں