وقت اور حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے‘ غم‘ خوشی‘ تنگی‘ خوشحالی‘ بیماری اور صحت یہ سب زندگی کے اتار چڑھاؤ کا حصہ ہیں۔ ایک انسان کی زندگی میں حالات و واقعات کا یہ مدوجزر ایک فطری عمل کا حصہ ہے۔ اسی لیے خالق کائنات نے انسان کی ذہنی اور جسمانی تخلیق اس طور پر کی ہے کہ وہ ہردور میں اپنے جینے کا سامان پیدا کرلیتا ہے۔ ویسے بھی جب تک انسان فطرت کے قریب رہا جسمانی طور پر اگرچہ اسے پرمشقت زندگی گزارنا پڑی لیکن وہ ذہنی طور پر پرسکون تھا۔ 19ویں صدی کا آغاز ایک سائنسی انقلاب کا پیش خیمہ بنا جس کا سفر موجودہ صدی تک جاری ہے۔ اس عرصے کے دوران لاتعداد سائنسی ایجادات نے جسمانی طور پر انسان کو بے حد آسائشات اور سہولیات بخش دی ہیں لیکن ساتھ ہی طرز زندگی میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کردی ہے جس نے لوگوں کو ذہنی طور پر تھکانا شروع کردیا ہے۔
ڈیپریشن کیا ہے؟: ماہرین نفسیات ڈیپریشن کو ایسی بیماری قرار دیتے ہیں جو نہ صرف کسی شخص کی سوچ اور موڈ کو متاثر کرتی ہے بلکہ حد سے بڑھ جانے پر جسمانی صحت بھی اس کی زد میں آجاتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ کھانے پینے‘ سونے جاگنے ا ور رویوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈیپریشن میں مبتلا افراد کی اپنے اور دوسروں کے بارے میں رائے میں بھی بہت تبدیلی آتی ہے جو کہ بڑی حد تک منفی ہوجاتی ہے۔ ڈیپریشن بیماری کی ایسی قسم ہے جس میں مریض اکیلا اس پر قابو نہیں پاسکتا بلکہ اسے اپنے اہل خانہ اور دوستوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔
ڈیپریشن پیدا ہونے کی وجوہات: ہر انسان کی زندگی میں جذباتی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں‘ اس دوران کبھی کبھار ذہنی تناؤ یا حساسیت کا شکار ہونا یا طبیعت میں پژمردگی محسوس ہونا نارمل ذہنی کیفیات میں شامل کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس کیفیت کو وقتی ڈیپریشن کا نام دیتے ہیں جو کسی خاص وجہ سے پیدا ہو اور کچھ وقت کے بعد اس حالت سے باہر نکل جائیں لیکن اگر مشکل حالات طوالت اختیار کرجائیں تو مریض شدید ڈیپریشن کی حالت میں چلے جاتے ہیں جس سے طبیعت میں مایوسی‘ غصہ اور اداسی کا عنصر بہت بڑھ جاتا ہے۔ منفی روئیے‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آنا‘ بے چینی اور سماجی تعلقات میں سرد مہری شدید ڈیپریشن کی علامات ہیں۔ اس درجے کے ڈیپریشن پر مناسب علاج کے بغیر قابو پانا ناممکن ہے۔ حالانکہ ڈیپریشن کا شمار ایسی بیماریوںمیں کیا جاتا ہے جس میں مناسب علاج کی وجہ سے تقریباً 80فیصد لوگ نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
ڈیپریشن کی علامات: ماہرین نفسیات کی رائے کے مطابق ڈیپریشن کی علامات ہر شخص میں بیماری کی شدت کی بناء پر مختلف ہوسکتی ہیں اگرچہ مندرجہ ذیل علامات کسی شخص میں ظاہر ہوں تو اس کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ ٭ مزاج میں اداسی‘ بے چینی کا پیدا ہونا یا ادھورے پن کا احساس ٭ روز مرہ کے کاموں میں دلچسپی کا ختم ہونا یا ہر کام بے فائدہ لگنا ٭ بے آرامی کی کیفیت کا طاری رہنا اور خواہ مخواہ رونے کو دل چاہنا ٭ اپنی ناقدری کا احساس ہونا یا مایوسی اور یاسیت ہر وقت طاری رہنا ٭ بہت کم اور بہت زیادہ سونا یا بغیر وجہ کے علی الصبح جاگنا ٭ بہت کم یا بہت زیادہ بھوک کا لگنا‘ وزن میں بے تحاشا کمی یا زیادتی ٭ کمزوری تھکاوٹ اور ہر وقت طبیعت گری گری رہنا ٭ موت اور خودکشی کے بارے میں سوچوں کا بار بار حملہ آور ہونا ٭ توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت میں کمی کا واقع ہونا ٭ علاج کے باوجود کچھ معمولی بیماریوں میں افاقہ نہ ہونا مثلاً سردرد‘ بدہضمی یا جسم میں مستقل درد کی شکایات رہنا۔
ڈیپریشن کا علاج کیسے ممکن ہے: ڈیپریشن پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض اوقات دماغ میں کچھ کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈیپریشن حملہ آور ہوسکتا ہے اور بعض اوقات حالات ڈیپریشن کے موجب بن جاتے ہیں۔ پہلی صورت میں ماہر نفسیات بیماری کی شدت کے مطابق دوا تجویز کرکے مریض کو نارمل زندگی کی طرف لاتے ہیں لیکن اگر ڈیپریشن کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا ہورہا ہو مثلاً کچھ لوگ اپنی ملازمت یا وہاں لوگوں کے رویوں سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں اور مستقل ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں دوسری ملازمت ڈھونڈنا یا کوئی متبادل کام کرنا اس پریشانی سے نجات دلاسکتا ہے۔ یعنی یہ کہ ان وجوہات کا خاتمہ کیا جائے جوکہ ڈیپریشن پیدا کررہی ہیں۔
بعض اوقات ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے کچھ لوگ تنہائی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اس صورتحال میں اپنے لیے مثبت سرگرمیاں تلاش کرنا اور ہم خیال لوگوں سے میل جول رکھنا اس کیفیت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ یہ وقتی ڈیپریشن کی کیفیت ہوتی ہے جوکہ حالات بدل لینے سے ختم ہوجاتی ہے۔
طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کریں: ڈیپریشن جدید اور تیز رفتار طرز زندگی سے جنم لینے والی بیماری ہے جس میں کچھ لوگ زندگی کی دوڑ میں آگے اور آگے جانے کی حرص میں اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر اتنا تھکا لیتے ہیں کہ ڈیپریشن میں چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں خصوصاً خواتین جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو وہ منفی سوچوں اور بیمار رہ کر ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً پاکستانی خواتین میں اس کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ان کیلئے مثبت سرگرمیوں کی کمی ہے۔ منفی خاندانی سیاست اور دوسروں کے مسائل میں بلاوجہ خود کو الجھانے سے بھی خواتین ہر دم تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔ ان تمام کیفیت سے نجات پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے طرز زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے اور اس میں تبدیلی کی جائے۔ اس سلسلے میں اگر ماہر نفسیات سے بھی مشورہ کیا جائے تو یہ تبدیلی زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے اگرچہ یہ تبدیلی اتنی آسان نہیں ہوتی لیکن اگر چند باتوں پر عمل کیا جائے تو ڈیپریشن پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ٭اپنے وقت کا بہترین استعمال کریں‘ فارغ وقت میں اچھی کتب کا مطالعہ یا معاشرے کی بھلائی کیلئے کیے جانے والے کاموں میں حصہ لینا آپ کے اندر مثبت اور خیر کے جذبات کو بڑھا کر سکون بخشتا ہے۔ ٭ آپ خاندان میں ہونے والی لڑائیوں یا رنجشوں سے پریشان رہتی ہیں‘ تعلقات کو بہتر بنانے میں پہلا قدم آپ اٹھائیے۔ یہ پیش قدمی بہت سے مسائل کو سلجھا سکتی ہیں۔ مضبوط خاندانی تعلقات مشکل وقت میں بہت سہارا ثابت ہوتے ہیں۔ ٭ روز مرہ معمولات کو ایک ٹائم ٹیبل کے تحت انجام دیں‘ وقت پر سونا اور جاگنا ذہنی صحت کیلئے ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ رات بھر کی پرسکون نیند دن کے وقت آپ کو ہشاش بشاش رکھ سکتی ہے۔ ٭ کچھ وقت ورزش یا سیر کیلئے روزانہ مخصوص کریں۔ ٭ منفی خیالات سے ہرممکن بچنے کی کوشش کریں‘ اعصاب کو پرسکون رکھنے کی ورزش کرنے سے بھی آپ اپنی کیفیت پر قابو پاسکتی ہیں۔ اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط بنائیے۔ صبر اور نماز سے اپنے رب کی مدد طلب کریں بے شک اللہ کا ذکر دلوں کو سکون بخشتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں