حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا جب تم کسی شہر کا محاصرہ کرتے ہو تو کیا کرتے ہو؟“ میں نے کہا ہم شہر کی طرف کھال کی مضبوط ڈھال دے کر کسی آدمی کو بھیجتے ہیں۔
محتاج کی مدد
ایک مرتبہ ایک بدو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ”اے عمر (رضی اللہ عنہ) لطف اگر ہے تو جنت کا لطف ہے‘ میری لڑکیوں اور ان کی ماں کیلئے نئے کپڑوں کا انتظام کردے‘ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ایسا ضرور کرنا۔“
ان کا یہ سوال سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں تمہارا کہنا نہ مانوں تو کیا ہوگا؟ اس بدو نے عرض کیا ”تجھ سے قیامت میں میرے متعلق سوال ہوگا اور توہکا بکا رہ جائے گا‘ پھر یا تو دوزخ کی طرف جانا ہوگا یا جنت کی طرف۔“
اس کے یہ اشعار سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی‘ پھر اپنے غلام سے فرمایا کہ ”میرا یہ کرتہ اس کو دیدو‘ اس وقت اس کے سوا کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے۔
کسریٰ کے کنگن
حب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو سراقہ بن مالک گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے‘ لیکن تھوڑی دیر میں ان کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور وہ گھوڑے سے نیچے آگرے‘ جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا مشاہدہ کیا تو عرض کیا”خدا کی قسم! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ کا دین ضرور غالب ہوکر رہے گا اور آپ کی شان بلند ہوگی‘ آپ مجھ سے عہد کریں کہ جب میں آپ کے پاس آپ کے ملک میں آئوں تو میرا اکرام کریں اور میرے لیے اس معاہدہ کو لکھ دیں“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا چنانچہ انہوں نے ایک ہڈی پر اس بات کو لکھ دیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ سے فرمایا ” اے سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہوگا‘ جب تو کسریٰ کے کنگن پہنے گا؟“ بعدازاں سراقہ مسلمان ہوگیا اور مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر بھی ہوا۔
زمانہ کے حالات میں تغیر آیا‘ مسلمانوں کو قادسیہ میں فتح حاصل ہوئی اور مال غنیمت مدینہ آیا‘ اس میں کسریٰ کا تاج بھی تھا اور اس کے سونے کے تاروں سے بنے ہوئے کپڑے اور جواہرات سے آراستہ ہار بھی تھا اور اس کے دو ایسے کنگن بھی تھے کہ کسی آنکھ نے ایسے کنگن نہ دیکھے ہوں گے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جو اس وقت امیرالمومنین تھے) نے آواز دی سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ سراقہ حاضر ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو کسریٰ کی قمیض اور اس کے کنگن پہنائے اور اس کی تلوار گردن میں لٹکائی اور ان کے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا۔ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ جھوم جھوم کر چلنے لگے‘ ان کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا‘ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور بارگاہ رب العزت میں عرض گزار ہوئے اے اللہ! تو نے یہ مال اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیا حالانکہ وہ آپ کے نزدیک مجھ سے زیادہ محبوب و مکرم تھے اور یہ مال ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیا حالانکہ وہ آپ کو مجھ سے زیادہ محبوب ومکرم تھے لیکن میں آپ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ اگر آپ نے یہ مال میری آزمائش کیلئے دیا ہو۔
مسلمان کی قیمت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا جب تم کسی شہر کا محاصرہ کرتے ہو تو کیا کرتے ہو؟“ میں نے کہا ہم شہر کی طرف کھال کی مضبوط ڈھال دے کر کسی آدمی کو بھیجتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”ذرا یہ بتائو کہ اگر شہر والے اسے پتھر ماریں تو اس کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا وہ تو قتل ہوجائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہ ہوگی کہ تم لوگ ایک مسلمان کی جان ضائع کرکے ایسا شہر فتح کرلو جس میں چار ہزار جنگجو جوان ہوں۔
اہل آسمان کی خوشیاں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے پر آسمان والوں نے بھی خوشیاں منائیں ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فکرآخرت
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کردیا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں تسلی دینے کیلئے عرض کیا ”یاامیرالمومنین! آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت عطا ہوئی اور آپ نے اس صحبت کا حق ادا کیا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے اس کے بعد آپ ان لوگوں کے ساتھ رہے اور اب جب آپ ان سے جدا ہورہے ہیں تو اس حال میں کہ یہ لوگ آپ سے راضی ہیں“ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا تذکرہ کیا ہے تو یہ اللہ کی طرف سے میرے اوپر ایک احسان ہے اور جو آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ میرے تعلق کا تذکرہ کیا ہے تو یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک احسان ہے‘ بہرحال تم میری جو تکلیف دیکھ رہے ہو یہ تو تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم! اگر میرے پاس روئے زمین کے بقدر بھی سونا ہوتا تو میں اسے اللہ کے عذاب سے بچائو کیلئے فدیہ میں دے دیتا۔
سردار اہل جنت
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ دور سے آتے ہوئے دکھائی دئیے‘ انہیں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ انبیاءاور رسولوں کے سوا باقی تمام جنتیوں کے سردار ہیں‘ اے علی(رضی اللہ عنہ) ان کو نہ بتانا۔ (یعنی جب تک یہ زندہ ہیں)
اے عمر! (رضی اللہ عنہ) اب بات بنی....!
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تھے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ”یارسول اللہ! آپ مجھے میرے نفس کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس وقت تک بلند درجہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک میں تمہیں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔“
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ”خدا کی قسم! اگر یہ بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔“ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں اے عمر! اب بات بنی۔“
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں