انسان کو زندگی گزارنے کیلئے بنیادی ضروریات کا اللہ نے محتاج بنایا ہے‘ مثلاً بھوک مٹانے کیلئے کھانا‘ پیاس بجھانے کیلئے پانی‘ سانس لینے کیلئے ہوا اور انسان آگ‘ پانی‘ ہوا اور مٹی کا محتاج ہے اور اگر کوئی ان بنیادی چیزوں کا انکار کرے تو وہ انسان دنیا میں نہیں رہ سکتا۔ انسان ہر راستہ کے اندر ہر عمر کے اندر ہرموڑ کے اندر محتاج ہے‘ بچپن میں ماں‘ باپ کا کھلانے پلانے میں دین میں علماء صلحاء کا اگر دکان داری کرتا ہے تو دکان چلانے والوں کا‘ تاجر ہے توتجارت والوں کا اگر ان ضروریات کو انسان نظرانداز کردے تو اس کو لوگ احمق اور بیوقوف کہیں گے اور اس طرح جوان ہونے کے بعد جوانی کے تقاضے ہیں اوران کو ساتھ لے کر چلنے کا بھی۔ جوان ہو تو اپنا جیون ساتھی کامحتاج ہے چاہے کوئی مرد ہو یا عورت ہو کیونکہ یہ تقاضا اللہ نے رکھا ہے۔ میرے اور آپ کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوتا کیونکہ شہوت جوانی میں ہی آتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی جوان ہیں ان کیلئے کوئی جیون ساتھی کی تلاش کرنا ماں باپ کے ذمہ ہے۔
شادی مشکل زنا آسان:آج کے اس ترقی یافتہ دور کے اندر جہاں ہر طرف نفسا نفسی ہے اور ہر کوئی اپنی دھن میں مگن اور نہ کوئی کسی کی فکر کرتا ہے اور نہ کوئی اپنی ذمہ داریوں پر کان دھرتا ہے۔ میں ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جو جوان ہوئے ماں باپ نے خیال نہ کیا اور وہ غلط راہوں پر چل نکلے اگر میں ایک ایک کے بارے میں لکھوں تو شاید کتاب تیار ہوجائے۔ آج کل شادی مشکل… زنا آسان ہے۔
دیر سے شادی کرنے کے مسائل:حضور سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ’’قیامت کے نزدیک زنا آسان اور نکاح مشکل ہوجائے گا‘‘ آج کل ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ جب تک لڑکا اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوجائے گا تب تک اس کی شادی نہیں کرنی یا شادی کے ناممکن کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لڑکا اپنی شادی کا سارا خرچہ خود کرے اور ہر وہ رسم کرے جو ہم کہیں تو شادی ممکن ہوگی ورنہ ناممکن ہے اور بعض ماں باپ اس لیے شادی نہیں کراتے کہ بچہ کمارہا ہے اور ہمیں دے رہا اگر اس کی شادی کردی تو وہ ہمیں پیسہ دینا کم کردے گا اور ہمارے جو فضول کے اتنے خرچ ہیں وہ ہمیں کون دے گا اگر وہ غلط راہوں پر نکلتا ہے تو پھر روتے ہیں کہ بچہ نافرمان ہوگیا اور ایسی غلط حرکتوں میں لگ گیا ہماری پروا نہیں ہے یہ سب باتیں ماں باپ سمجھتے ہیں کہ بچہ کی ضرورت ہے یعنی جو کہ اللہ نے رکھ دی اور اس کی اختیاری نہیں جیسا کہ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو ماں باپ کو کوئی بتاتا نہیں کہ بچہ کا کھانا‘ پینا‘ نہلانا آپ کے ذمہ ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھاتے ہیں ایسے ہی بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سمجھنا بھی ماں باپ کے ہی ذمہ ہے کہ اب بچہ جوان ہوگیا ہے اور اب شادی اس کی ضرورت ہے وہ ہم پوری کریں تاکہ یہ بچہ ایسے ہی ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔
آج کل ترقی کے نام پر جو فحاشی عریانی پھیلائی جارہی ہے اور نوجوان نسل جو تباہی کے دہانے پر جارہی ہے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ہم نے یورپ کے لوگوں کی طرح رہنا اپنایا اور یورپ نے جو ہمیں تہذیب دی اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو تباہ اور برباد کیا اور کررہے ہیں مگر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر اب وہ ہوشیاری اور مکاری سے مسلمان ملکوں میں کام کررہے ہیں مگر اپنے ملک میں نوجوانوں کو کم عمری میں شادی کی ترغیب دے رہے کیونکہ دیر سے شادی کرنے سے اولاد کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ماں باپ سے گزارش:میری تمام ماں باپ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے حال پر رحم کریں جلدی شادیاں کرنے میں ہی عافیت سمجھیں کیونکہ اگر بچہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے گا تو اس کا گناہ ماں باپ کے سر ہوگا۔
نکاح میری سنت ہے (الحدیث)
(محمد مظہرحسین)
دنیا میں محبت کی ادائیں بھی ہیں اور بغض کی فضائیں بھی‘ محبت کے دل کش نظارے بھی ہیں اور بغض کے دہکتے انگارے بھی لیکن ان کے اسباب مختلف ہیں… کہیں محبت حسن کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کہیں مال کی وجہ سے اور کہیں حسب و نسب کی وجہ سے اور کہیں شجاعت اور بہادری کی وجہ سے اسی طرح بغض کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’محبت کا جوڑ لگانے والی چیزوں میں سے نکاح کا جوڑ سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
نکاح ! معاشرہ سنوارنے کا ذریعہ: نکاح سے محبت بڑھتی بھی ہے اور باقی بھی رہتی ہے کبھی مرد ایک خاندان کا ہوتا ہے جب کہ عورت دوسرے خاندان کی‘ کوئی عربی کوئی عجمی‘ کوئی ایشیائی‘ کوئی افریقی‘ کوئی بڑا کوئی چھوٹا لیکن جب آپس میں نکاح کا تعلق قائم ہوتا ہے تو ایک نہ ختم ہونے والی محبت ان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سچی محبت کرنے والے اور سچی خیرخواہی کرنے والے ہوجاتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ہم درد ہوجاتے ہیں۔ (بشرطیکہ سلیم الفطرت ہوں) اس سے بھی بڑھ کر معاشرہ میں ان دونوں کا مقام و مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور دونوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ان کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتے ہیں جو نعمت بے نکاحوں کو پوری زندگی نہیں ملتی ہے نکاح کے جوڑ سے اللہ رب العزت دو اجنبی خاندانوں میں بھی ہمدردی اور محبت پیدا فرمادیتے ہیں جو آگے چل کر معاشرہ کو سنوارنے میں بہت مددگار و معاون ثابت ہوتی ہے کہیں عورت کا والد اپنے سمدھی (داماد کے والد) کی عیادت کیلئے جارہا ہے کہیں عورت کی ساس اپنی سمدھن (اس کی والدہ) کے حالات معلوم کرنے جارہی ہے‘ کہیں داماد ساس کے ساتھ محرم ہوجانے کی وجہ سے حج پر جارہا ہے۔ بالخصوص اگر ان کے اندر دین کی سمجھ بوجھ بھی ہو تو نکاح دو خاندانوں میں ہی نہیں بلکہ کئی خاندانوں اور کئی نسلوں تک اسلام کی تعلیمات پہنچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس! کہ آج اتنی خوبیوں اور نعمتوں سے مالا مال نعمت کو ہمارے معاشرہ میں زحمت سے تبدیل کیا جارہا ہے اور نکاح سے نفرت دلانے کیلئے کئی حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دشمن (کفار) نے ہم سے جس طرح ایمانداری اور وفاداری وغیرہ جیسی نعمتوں کو چھین لیا ہے۔ اسی طرح وہ اب ہم سے عفت اور پاک دامنی والی زندگی چھین کر‘ آزادی کے سنہرے خواب دکھا کر ہمیں بے حیائی‘ بے غیرتی اور فحاشی کے گہرے گڑھوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں‘ آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں