پورا سال سکول نہیں گیا
میرا چھوٹا بھائی نویں جماعت میں پورا سال سکول نہیں گیا‘ اسے ایک بچے نے ڈرا دیا تھا کہ اگر تم سکول آئے تو تمہاری ایسی پٹائی ہوگی کہ سب دیکھیں گے۔ دراصل وہ ایک ماہ تک بیماری کی وجہ سے سکول نہیں جاسکا تھا۔ پھر ٹھیک ہونے کے بعد بھی اس خوف سے نہ گیا کہ کہیں سختی نہ کی جائے اور جماعت کے طالب علموں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ میں نے اسے گھر میں پڑھایا۔ سکول میں فیس دیتی رہی اور نویں کے امتحان میں شامل کروا دیا۔ اس نے بہترین نمبروں سے تمام پرچے پاس کرلیے۔ اب مسئلہ میٹرک کا ہے۔ اب بھی وہ سکول جانے کا نام نہیں لیتا اس کا کہنا وہی ہے کہ سرماریں گے۔ پٹائی لگائیں گے یا سخت جملے کہیں گے۔ میں نے بہت سمجھایا۔ اپنے ساتھ لے کر گئی مگر پھر وہ خود نہ گیا۔ کیا اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ ذہین ہونے کے باوجود سکول جانے سے گھبراتا ہے۔ (شمیم‘ لاہور)
مشورہ: آپ کا بھائی خوف کا شکار ہے۔ شخصیت کی تعمیر میں بچپن اور اس کے بعد کے دور میں ماں باپ‘ ٹیچر‘ بھائی‘ بہن اور دیگر گھر کے بڑوں کے ذریعے دئیے گئے انعامات ور سزائیں بہت زیادہ اہم کردار انجام دیتی ہیں۔ جن بچوں کو بہت روک ٹوک کی جاتی ہے۔ سخت سزائیں دی جاتی ہیں اور خاص طور پر دوسروں کے سامنے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ وہ آئندہ کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں یا خوف کا شکار رہتے ہیں۔ آپ کے بھائی کو ڈر ہے کہ وہ سکول گیا تو اسے ٹیچر کی طرف سے تکلیف دو رویے کا سامنا ہوگا اور دیگر طالب علموں کے سامنے بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی لیکن وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہ اس نے امتحان میں پاس ہوکر ثابت کردیا ہے۔ اب آپ کا کام اسے ہمت اور حوصلہ دینا ہے۔ اس کیلئے سکول جائیں اور ٹیچر سے کہیں کہ وہ بچے کو غیرحاضر ہونے پرکچھ نہ کہیں اور اب تو بیمار ہوئے بھی بہت وقت گزرچکا بلکہ اب اس کو بطور حوصلہ افزائی پاس ہونے پر انعام دیں۔ دوسری صورت میں جب وہ پہلے دن آئے تو بہت محبت سے اس کی کمر تھپکا کر خوش آمدید کہیں‘ شاباش دیں کہ اس نے سکول نہ آکر بھی نویں جماعت پاس کرلی۔ دوسرے بچوں کے سامنے اس کی تعریف کریں۔ خیال رہے کہ اس کا خوف دور کرنے کیلئے آپ کو اور ٹیچر کو گفتگو کرکے اس کی مدد کرنی ہوگی تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ دوبارہ سکول جانے لگے گا۔
آخر مجھ میں کیا کمی تھی
میں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت کرلی‘ بھائی نے صرف انٹر کیا۔ ایک کمپنی میں ملازمت کے دوران کام سیکھا اور اب وہ امریکہ میں ہے۔ گھر پر بھی کافی رقم بھیج دیتا ہے۔ شادی امیر لوگوں میں ہوئی۔ میں نے ابھی تک تنگدستی کی وجہ سے شادی تک نہ کی۔ اسے دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ آخر مجھ میں کیا کمی تھی۔ لوگوں سے اس کی تعریفیں سنتا ہوں تو دل کی عجیب حالت ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ مجھے اس سے حسد ہے مگر کیا ہے یہ بھی معلوم نہیں… (سلیمان حیدر‘ کراچی)
مشورہ: آپ کو بھائی سے حسد نہیں بلکہ اس پر رشک ہوسکتا ہے۔ آپ ترقی کرنا چاہتے تھے اور اب بھی چاہتے ہیں یہ خواہش اچھی ہے مگر بھائی آپ کی توقع سے زیادہ آگے بڑھ گیا آپ نے تعلیم حاصل کی اور اس نے پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کی اور ملک سے باہر بھی چلا گیا۔ اس وجہ سے اس کی آمدنی آپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کیا یہ اچھی بات نہیں کہ آپ اپنے ملک میں ہیں اور ذمہ داری سے کام کررہے ہیں۔ ملازمت کے علاوہ بھی کوئی اور کام کریں۔ کچھ رقم جمع ہوجائے تو کاروبار کرلیجئے گا۔ محنت کی تو آپ بھی خوشحال ہوسکتے ہیں۔ اس دوران اہل خانہ کے مشورے سے کسی اچھی لڑکی سے شادی کرلیں۔
میرا کوئی قصور نہیں تھا
قسمت سے بہت اچھے لوگوں میں میری منگنی ہوگئی‘ ہم تین بہن بھائی ہیں۔ بڑی بہن ڈاکٹر ہیں۔ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی۔ میں سکول میں پڑھاتی ہوں۔ ایک بھائی ہے میٹرک کے بعد اس کی صحت خراب ہوگئی۔ ہمارے والدین نہیں ہیں۔ ہم تینوں چھوٹے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ ہماری پرورش ماموں کے گھر ہوئی‘ اب ہم الگ گھر میں رہتے ہیں۔ بھائی نشے کا عادی ہوگیا ہے۔ پہلے تو ہمیں اندازہ نہیں ہوا پھر بڑی بہن نے بتایا کہ اب وہ کوئی شدید نشہ کرہا ہے‘ مثلاً ہیروئن وغیرہ کا… غصے میں آکر انہوں نے بھائی کو گھر سے نکال دیا ہے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ وہ گھر کی چیزیں نہ بیچ دے یا چوری وغیرہ نہ کرلے۔ افسوس ہوا جب لڑکے والوں کو معلوم ہوا کہ بھائی نشہ کرتا ہے تو انہوں نے رشتہ ختم کردیا۔ اب انہیں یہ کون بتائے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہرشخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ ہم کیسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک کے جرم کی سزا دوسرے بے قصور کو سنائی جاتی ہے۔ ویسے یہ بتادوں کہ مجھے بھائی سے شدید محبت ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ نشہ کرنا چھوڑ دے۔ (علینہ حیات‘ پشاور)
مشورہ: شراب‘ افیون‘ تمباکو‘ چرس‘ ہیروئن جیسے شدید نشوں کے عادی لوگ ذہنی طور پر مریض ہوجاتے ہیں‘ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ نشہ چھوڑنا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کیونکہ نشہ نہ کرنے پر انہیں جسمانی اور ذہنی تکلیف‘ درد اور اذیت ہوتی ہے۔ اس درد سے نجات کیلئے وہ دوبارہ نشے کی طرف بھاگتے ہیں اور ہر قیمت پر نشہ آور شے خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ مجرم نہیں ہوتے مگر نشہ انہیں جرم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان مریضوں کو لوگ بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ برا سمجھتے ہیں‘ ان کی وجہ سے اہل خانہ کو بھی شرمندگی اور ندامت کا سامنا ہوتا ہے۔ آپ بھائی سے محبت کرتی ہیں۔ بڑی بہن ڈاکٹر ہیں‘ انہیں ضرور معلوم ہوگا کہ بھائی کا علاج کروایا جاسکتا ہے وہ ذلت و رسوائی کے عذاب میں مبتلا رہے اور آپ لوگ بھی بے سکون رہیں‘ اس سے بہتر ہے کہ نشہ چھڑوایا جائے اور اس نازک وقت میں اس کی مدد کی جائے۔ یہ بہت مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس سے بات کریں خاص طور پر اس وقت جب وہ نشے میں نہ ہو۔ یقیناً وہ اپنی زندگی سے تنگ آچکا ہوگا۔ اس میں خواہش پیدا کریں کہ وہ نشہ کرنا چھوڑ دے اس کا ماحول بدلیں اور خیال رکھیں کہ آئندہ وہ ان دوستوں میں نہ جانے پائے جن کے ساتھ نشہ کرتا رہا ہے۔ اس دوران اس کی تربیت بھی ضروری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں