پشاور میں ایک مسجد میں جیسا کہ ہر مسجد میں بحث مباحثہ ہوتا رہتا ہے بدقسمتی سے مسلمانوں میں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف غیبت اور بہتان طرازی ایک قسم کی عادت ثانیہ میں بن چکی ہے۔ بلاتحقیق ایک سنی سنائی بات آگے کسی دوسرے تک پہنچاناہر کوئی اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ (غیبت) اس مذکورہ مسجد میںہ وا کہ ایک صاحب (موصوف کے والد مرحوم بھی اسی مسجد کے) جو کہ مسجد کے متولی ہیں ان کیلئے ان باپ بیٹوں کی خدمات علاقہ کے کسی بھی فرد سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مسجد کی خدمت ان حضرات کے فرائض میں شامل ہوچکا ہے۔ (راقم کا باوجود فروعی اختلاف ہونے کے باوجود کبھی بھی ان کے خلاف کوئی بھی بات اشارتاً یا کنایقاً نہیں کہی)بہرحال اس قبیل کے کسی صاحب نے حاجی صاحب کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہی اس کے جواب میں ان حاجی صاحب کے غالباً حامی صاحب ہونگے نے جواباً ان س کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ حاجی صاحب تو بڑے ایماندار قسم کے صاحب ہیں بڑے متقی اور پرہیزگار شخص ہیں جنہوں نے اعتراض کیا تھا پوچھا کہ وہ کیونکر ایماندار کہہ رہے ہیں آپ انہیں جواب میں کہا گیا کہ سنیے بغیر تحقیق کسی پر کوئی الزام لگانا (مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا ہے (حدیث)) ہوا یوں کہ حاجی صاحب کے پاس ان کے ایک دوست ہمیشہ آیا کرتے تھے (فارغ وقت) ان دوست صاحب کا بلاناغہ آناجانا رہتا تھا۔ بہت کم ہی ناغہ ہوتا تھا۔ حاجی صاحب کے بچوں کا کہنا تھا کہ ہمارے والد صاحب ان حاجی صاحب کے پاس روپے رکھتے ہیں مگر حاجی صاحب کو ان کے دوست نے منع کردیا تھا کہ میرے بچوں کے علم میں بھی نہ انا چاہیے کہ میں اپ کے پاس رقم جمع کراتا رہتا ہوں۔ ایک دفعہ مذکورہ دوست کے بچوں نے حاجی صاحب سے پوچھا بھی مگروہ حاجی صاحب صاف انکاری ہوگئے بلکہ دوست کیلئے جھوٹ بھی بولنا پڑا کہ یہ فرد آپ کے والد میرے دوست ضرور ہیں لیکن اس کے علاوہ اور کوئی تعلق نہیں ہے (وہ میرے پاس کوئی رقم نہیں رکھتے) یہ حقیقتاً آپ لوگوں کا ہم دونوں پر خواہ مخواہ کا شک ہے حالانکہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے وہ بیچارے (بچے) اپنا سا منہ لیکر چلے جاتے جب وہ صاحب تشریف لاتے تو حاجی صاحب سے آتے ہی پوچھتے کہ میرے بچے تو نہیں آئے تھے اور پھر پوری گپ شپ کا موضوع بچے اور روپے کی نظر ہوجاتے اور پھر مجلس برخاست ہوجاتی۔اسی طرح وقت گزرتا رہا اور حسب سابق گپ شپ بھی پھر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس کے بچے آئے اور گھبرائے ہوئے سے تھے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آپ کا دوست ہسپتال میں ہے میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے لہٰذا ہمیں انہیں ہسپتال لیجانا پڑا۔حاجی صاحب نے سب کام چھوڑ کر اپنے دوست کی عیادت کیلئے ہسپتال پہنچ گئے۔ جب حاجی صاحب نے دیکھا تو انہیں دیکھ کر بڑا دیکھ ہوا‘ فالج ایک سائیڈ پر ہوا تھا اور زبان بھی بند ہوگئی تھی‘ اب حاجی اشاروں سے اپنی بات ان تک اور ان کی بات بھی اشاروں ہی کی زبان سے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ان کے بچوں نے فوراً قلم کاپی سامنے رکھی اور کہا کہ جو کچھ آپ نے کہنا ہے وہ لکھ کر ایک دوسرے کو سمجھائیں۔ کاغذ قلم لیکر دونوں اپنی باتیں ایک دوسرے کو سمجھانے میں لگ گئے کہ اچانک ان صاحب کے بچوں میں سے بڑے نے بڑی عجیب سی بات کردی جو کہ ان دونوں غالباً اس سوال کیلئے بالکل بھی تیار نہ تھے (یعنی سوال کیا گیا کہ میرے والد صاحب کے آپ کے پاس کتنے روپے ہیں یا اور کوئی بات) مریض موصوف نے جو کہ غلطی سے سوالیہ کاغذ موصوف (مریض) کے ہاتھ میں تھا تو انہوں نے فوراً سے بیشتر لکھ دیا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ آپ حضرات کو سمجھایا ہے کہ یہ صاحب میرے دوست ہیں اس کے سوا کوئی اور تعلق نہیں ہے۔جب ان کے دوست نے مریض کا جواب دیکھا تو انہوں نے بھی دوست کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ کے والد صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں اور ان کے بچوں کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ خیر اسی طرح یہ عیادت اختتام پذیر اور دعائیں کرتے ہوئے انہوں نے اجازت چاہی اور رخصت ہوگئے۔ حقیقت میں ان صاحب کی بیماری سے پریشان رہنے لگا لیکن وہ اس بیماری سے صحت یاب نہ ہوسکا اور اللہ کو پیارا ہوگیا موصوف اب مرحوم ہوچکے تھے اللہ ان کی کوتاہیوں کو درگزر فرمائے۔
ان کے دوست کو ان کے بچوں نے فون پر اطلاع دی جس کا انہیں بڑا افسوس اور دکھ ہوا۔ فوت ہونے کے چہلم کے بعد حاجی صاحب نے مرحوم کے بچوں کو کہا کہ آپ کے والد مرحوم کے میرے پاس ایک لاکھ ستر ہزار روپے امانت ہیں جب بھی آپ چاہیں آکر لے جائیں اب پسماندگان کو بڑی حیرانگی ہوئی کہ آپ نے ہسپتال میں انکار کردیا تھا اور اب۔۔۔؟ تو حاجی صاحب نے ان کی حیرانگی دور کرتے ہوئے کہا کہ جب رقم کے مالک نے انکار کردیا تھا تو میں کیسے اقرار کرتا‘ بہرحال بہن بھائیوں اور ان کی والدہ کی موجودگی میں رقم ادا کردی گئی۔ یہ تو تھی حاجی صاحب کی ایمانداری جو کہ واقعی قابل تعریف ہے۔
عبرت حاصل کریں: لیکن یہ واقعہ میں جب بھی یاد کرتا ہوں تو ایک چیز پر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مریض ہسپتال میں بیڈ پر پڑا ہوا ہے زبان بند ہے لیکن اپنے بچوں کے ناگہانی سوال پر حیرانگی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے اسے فوراً خیال آیا کہ اگر میں نے اس کاغذ پر لکھ دیا تو یہ بچے میرے سامنے ساری رقم لے جائیں گے اور میں منہ دیکھتا رہ جاؤنگا‘ میں تو بس دو چار دن کیلئے ہسپتال رہونگا اور صحت یاب ہوکر گھر چلاجاؤں گا۔ مگر افسوس کہ اسے موت کا خیال بالکل بھی نہیں آیا
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں