اچھے اچھے پیارے بچو! آج میں آپ کو سکول سے بھاگنے والے کی ایک داستان سناتا ہوں جنہیں سکول سے بھاگ جانے کے بعد سارا دن (سکول کی چھٹی تک) نہر پر نہانے کے سوا کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ یہ واقعہ میرے ایک دوست ضیاء الدین صاحب کا ہے جو کہ مجھ سے بہت چھوٹے تھے حالانکہ میرا کام دوسروں تک اچھائیاں پہنچانا ہے چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔
تو اب ضیاء الدین کی زبانی سنیے۔ ہمارا کام جو کہ روز کا معمول تھا سکول سے بھاگنا… ہم گرمیوں میں نہر پر نہانے کیلئے صبح ہی صبح پہنچ جاتے اور دوپہر تک گھروں کو واپسی ہوتی تھی۔ ہاںتو میں کہہ رہا تھا کہ ضیاء الدین صاحب جو کہ (جاوا) کے نام سے مشہور تھے سارا سارا دن نہر پر نہانے اور دوپہر کے قریب گھر روانگی شروع کردیتے ۔ایک دن ان کے ساتھی اسے تنہا چھوڑ کر غائب ہوگئے اب واپسی پر ضیاء صاحب کبھی اس گلی اور کبھی اس گلی میں ۔۔۔۔۔ مگر ان کے ساتھی کہیں بھی نہیں ملے اور نہ ہی وہاں تھے۔ مایوس ہوکر نڈھال ہوکر آہستہ آہستہ چلنے لگے انہیں یکدم یہ محسوس ہوا کہ شاید اس گلی میں یہ چھپے ہوئے ہیں اور یہ بالکل دبے پاؤں اس گلی کے کونے تک پہنچے ان کا کونے تک پہنچنا ہی تھا کہ یکلخت گلی میں مڑے تو وہاں ان گنت مرغیاں تھیں اور لامحالہ ان مرغیوں کا ڈرنا‘ چیخنا‘ چلانا‘ پھڑپھڑانا لازمی امر تھا مگر اس سب کچھ کے باوجود ایک اور مصیبت جو کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تمام گھروں کے دروازے کھلنا شروع ہوئے اور ہر ہر گیٹ پر مختلف شکل و صورت کے اصحاب انتہائی غصے کی حالت میں برآمد ہونا شروع ہوگئے دونوں طرف بلکہ تین اطراف سے مجھے گھیر لیا گیا اور میری پٹائی شروع ہوگئی‘ دو چار گھونسے تھپڑ ہی پڑے ہونگے کہ میں نے پوچھا حضرات میرا قصور کیا ہے؟ کس جرم میں مجھے پیٹا جارہا ہے۔
اتنے میں ایک باریش بزرگ ایک گیٹ سے برآمد ہوئے تو انہوں نے ہاتھ چلانا بند کروادیا۔ اس بزرگ کے استفسار پر میرا جرم مجھے معلوم ہوگیا کہ انہوں نے مرغی چور کو پکڑ رکھا ہے اب تو میرا پریشان ہونا لازمی امر تھا اب کیا کروں… ہر ایک اپنی اپنی کہہ رہا تھا کہ روز ایک مرغی غائب ہوجاتی تھی‘ آج ہم نے مل کر نہ سونے کا عہد کیا تھا اور آج ہماری خوش قسمتی اور تمہاری بدقسمتی کہ تم دھرلیے گئے۔ ہم آپ کو پولیس کے حوالے کرکے چھوڑیں گے لیکن ایک آواز کے آنے سے سناٹا چھا گیا اور میرا دل اندر سے خوش ہوگیا کہ اب رہائی ہوئی کہ ہوئی اور وہ بڑے میاں بڑے پیار سے مخاطب ہوئے کہ بیٹا آئندہ ایسا کام نہیں کرنا اور پیار سے مجھے رخصت کرنے کیلئے گلے لگایا اور نصیحت کی باتیں کرتے رہے اور میرے منہ پر پیار سے آخری رخصتی پیار کیا اور میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پاؤں سرپر رکھ کر بھاگا۔ جب روڈ (چارسدہ روڈ) پر پہنچا تو جو کوئی مجھے دیکھتا تو ضرور ہنستا… میں پتہ نہیں کیا سمجھتا رہا اور مسلسل آگے ہی آگے چلتا رہا کہ ناگہاں ایک دکان میں ایک آئینہ پر میری نظر پڑی اور میں نے بے تحاشہ رونا شروع کردیا۔ بے گناہ‘ بے خطا مار بھی پڑی اور منہ بھی کالا کیا… ہائے یہ میں نے کیا کیا…اب میں سکول سے کبھی نہیں بھاگوں گا۔
ادھوری عقل
ایک دن ایک دانا حکمت اور دانائی کی باتیں بتارہا تھا اور عدل و انصاف کے موضوع پر تقریر کررہا تھا۔ داستانوں اور مثالوں سے موضوع کو سمجھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا جس طرح اجتماعی قانون کے مطابق سب لوگ برابر اور مساوی ہیں اسی طرح طبعی قانون میں بھی سب چیزیں برابر اور مساوی ہیں اورہر چیز کا ذاتی وزن اور قیمت دوسری چیزوں کے وزن اور قیمت کے برابر ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ سردی اور گرمی ایک اندازہ کے مطابق انسانی زندگی کے کام آتے ہیں اس لیے جب ہم ہر موسم سے ایک مقررہ اندازہ سے کام لیں گے تو ہمارے لیے سود مند ہوگا اس لیے بہتر ہوگا کہ ہر چیز کی مقدار اور اندازہ معلوم کرنا چاہیے تاکہ ہمارے کام احسن طریقے سے انجام پائیں۔
اتفاق سے سامعین میں ایک ان پڑھ باورچی بھی موجود تھا جو اسی دانا کے ہاں کھانا پکاتا تھا‘ جب اس نے یہ باتیں سنیں تو اپنے آپ سے کہنے لگا جیسا کہ استاد کہہ رہا ہے کہ سب چیزیں مساوی اور برابر ہیں اور ان کا اندازہ اوروزن بھی برابر ہونا چاہیے اس لیے مجھے کہا گیا ہے کہ یخنی میں زیرہ ڈالوں پس بہتر ہوگا کہ استاد کی باتوں پر عمل کروں۔ باورچی نے گوشت‘ زیرہ‘ نمک‘ پیاز‘ پانی اور دوسرے مصالحہ جات ایک ہی وزن اور اندازہ سے لیے اور انہیں دیگ میں ڈال کر پکالیا اور ایک برتن میں ڈال کر استاد کے پاس لے گیا استاد نے پوچھا آج تم نے کونسی چیز پکائی ہے؟ باورچی نے کہا: یہ زیرہ ملی ہوئی یخنی ہے! استاد نے کہا یہ کیسی یخنی ہے اس کا پانی ختم ہے‘ گوشت خشک ہوگیا ہے اور کڑواہٹ میں نمک کی کان کی مانند ہے۔ پیاز‘ زیرہ اور دوسرے مصالحہ جات کی تیزی اور تندی کی وجہ سے بدبودار‘ بدمزہ اور دل آزار ہے کیا تو نے ہر چیز کا اندازہ بھلادیا ہے؟باورچی نے کہا: نہیں! میں نے کوئی بات نہیں بھلائی‘ میں ہمیشہ گوشت سے تین گنا پانی ڈالا کرتا تھا‘ نمک پیاز اور دوسرے مصالحہ جات بھی بہت کم استعمال کرتا تھا لیکن آج آپ کے حکیمانہ قول کے مطابق حکمت اور دانائی سے کام لیا اور سب چیزیں ایک ہی وزن اور اندازہ سے استعمال کیں! استاد نے کہا اے نادان! میں نے کب کہا ہے کہ سب چیزیں ہم وزن ہوں! باورچی نے کہا تم نے آج کی تقریر میں کہا ہے کہ ہر چیز کا وزن اور قیمت دوسری چیزوں کے وزن اور قیمت کے برابر ہوتا ہے اس لیے ہر معاملہ میں عدل اور مساوات سے کام لینا چاہیے پس میں نے بھی یہی کام کیا ہے۔استاد نے کہا‘ ہاں! میں نے بھی یہی کہا تھا ہر چیز کا اپنی جگہ پر درست اور صحیح استعمال ہونا چاہیے لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ سب چیزیں ہر جگہ برابر اور ہم وزن ہوں بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ یخنی بنانے کیلئے ایک پیالہ پانی ا ور تھوڑا سا نمک برابر ہیں اگر ہر چیز اپنے اندازہ کے مطابق کام میں لائی جائے تو عدالت اور مساوات برقرار رہ سکتے ہیں۔ باورچی نے کہا ہاں! اب میں سمجھ گیا ہوں۔میں نے تو چند کلمے‘ عدالت اور مساوات‘‘ سنے تھے کہ آپ نے کہا تھا سب چیزوں کی قیمت برابر ہے۔استاد نے کہا ہاں! تو نے مقصد کی حقیقت کو نہ سمجھا اگر تمام علوم اور ہنر محض چند کلموں کے سننے سے حاصل ہوجاتے تو سب لوگ دانا بن جاتے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں