محنت سے جی نہ چرائیے
ایک بزرگ سے کسی نوجوان نے سوال کیا کہ مجھے اپنا کل سنوارنے کا نسخہ بتائیے تو اس نے کہا ” اپنا آج درست کر لو“ کیونکہ آج نقد ہے اور کل ادھار‘ جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے کام میں لاﺅ‘ کل کی فکر نہ کرو‘ کیونکہ کل کا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ جوں ہی کل پہنچتا ہے وہی آج ہے
بڑوں سے سیکھئے
ایک بوڑھے کسان سے جو اپنی پوری زندگی زراعت میں گزار چکا تھا کسی نے سوال کیا کہ ”تمہاری نظر میں فلاں چیز کی کاشت اور نشوونما کےلئے کس قسم کی زمین موزوں ہے؟“ اس تجربہ کار اور روشن ضمیر بوڑھے نے جواب دیا۔ ”زمین خواہ کسی قسم کی بھی ہو‘ اس کی اہمیت نہیں بلکہ اس آدمی کی صلاحیت اور کارکردگی ہر چیز سے اہم ہے جو زمین میں ہل چلاتا ہے“۔ یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ ایک ہوشیار اور تجربہ کار انسان اپنی کوشش و محنت اور حوصلے سے خراب اور بنجر زمین کو بھی کارآمد و مفید بنالیتا ہے لیکن سست و کاہل اور ناتجربہ کار کسان زرخیز و شاداب زمینوں کے باوجود بھوکا رہتا ہے۔ یہ مثل آج کے ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں پر پوری اترتی ہے جن کے پاس علم‘ جسمانی قوت اور مال و متاع تو ہے لیکن تجربہ نہیں ہے اور وہ اپنے زعم میں اپنے آپ کو اس بوڑھے اور روشن ضمیر بوڑھے سے بر تر سمجھ کر ان سے کسب فیض حاصل کرنے میں اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ اپنے گھر کی چار دیواری اور اپنے اردگرد موجود ایسے بزرگوں کو نظر انداز کرکے اپنا آنے والا کل سنوارنے کی کوشش میں غلطاں و پیچاں اپنا آج بھی ضائع کررہے ہیں۔ عقل مند اوراپنے تجربات کی بناءپر اصول کے پابند یہ بزرگ جن کی روح میں وقار اور جن کے کردار میں اعتدال ہوتا ہے او رجو دل پر قابو رکھتے ہیں اور حرص و ہوس کے پنجے سے آزاد ہوتے ہیں۔ اپنے بڑھاپے میں بھی طوفان حوادث کے درمیان پہاڑ بن کر ثابت قدم رہتے اور زندگی کی حفاظت کررہے ہیں۔
اپنا آج بہتر بنائیں
ایک بزرگ سے کسی نوجوان نے سوال کیا کہ مجھے اپنا کل سنوارنے کا نسخہ بتائیے تو اس نے کہا ” اپنا آج درست کر لو“ کیونکہ آج نقد ہے اور کل ادھار۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے کام میں لاﺅ۔ کل کی فکر نہ کرو‘ کیونکہ کل کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ جوں ہی کل پہنچتا ہے وہی آج ہے۔ ”کل“ تیز رفتار‘ بلند پرواز اور وحشی پرندے کی مانند ہمیشہ ہمارے قابو سے باہر ہو کر فرار ہو رہا ہے۔ جونہی ہم اس کے قریب پہنچتے ہیں وہ اپنی شکل بدل لیتا ہے اور ہم بیچارے ہوس بازوں کو اپنی تلاش میں بے چین و مضطرب چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح ہماری پوری عمر تمنا و آرزو میں بسر ہو جاتی ہے اور ہم ہمیشہ کل کی امید میں خیالی و دلفریب محل تیار کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی خبر نہیں کہ مستقبل کی بنیاد ہوا پر ہے۔ زندگی کی بنیادآج پر ہے۔ ماضی گزر گیا۔ مستقبل کا پتہ نہیں۔ ان دوفانی دنوں کے درمیان ہم بجز موجودہ لمحوں کے اور کچھ نہیں رکھتے۔
حسرت وامید چھوڑئیے
آج کے نوجوان طبقے کو اس کی عادت سی ہو گئی ہے کہ اپنی زندگی پر کسی طرح راضی نہ ہوں۔ جو کچھ ان کے قبضے میں ہے اس سے بہرہ ور نہیں ہوتے اور جو چیز ان کے قابو سے باہر ہے اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ آج سے بیزار اس لئے ہیں کہ آج ان کے قبضے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نوجوان زمانے کی شکایت کرتے اور اپنی بد بختی کار رونا روتے ہیں۔ زندگی سے ناراض اور آسمان سے پریشان اپنے دن تشویش اور بد بختی میں گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ایک اور دن‘ ایک اور آج گزر جاتا ہے اور اپنا کام انجام دینے ‘ کوشش کرنے اور آگے بڑھنے کا ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور مستقبل کے بارے میں حسرت و افسوس کےلئے ایک اور میدان ہموار ہو جاتا ہے۔ ماضی گزر گیا‘ مستقبل آیا نہیں اور ہم آج کے سوا اپنے اختیار میں کچھ نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود بہت سے نوجوان آج کو گزرے ہوئے کل پر بھینٹ چڑھا دیتے اور ہمیشہ ان بدنصیب واقعات و حوادث کو دہراتے ہیں جو گذشتہ زندگی میں ان کو پیش آئے۔ اس طرح بد بختی کے شعلے جو غفلت کی وجہ سے اپنی روح کی بھٹی میں جلائے ہوئے ہیں ہوا مزید دے کر اور تیز کرتے اور بھڑکاتے ہیں۔ بھول جانا خوش نصیبی کا ایک لازمہ ہے۔ کامیابی کا راز:ضروری ہے کہ ہم گزشتہ بد نصیب یادوں اور غم انگیز واقعات کو فراموش کر کے سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی کی راہ طے کریں۔ آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اپنے آپ سے مانگیں ‘ جنت آپ کی روح میں اور خوش بختی کا سرچشمہ آپ کے دل میں پوشیدہ ہے۔ اگر آپ اس ابدی سرچشمے کو اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے تو اس کی تلاش میں دنیا کی خاک چھاننے کی بجائے اپنے گھر میں یا اپنے اردگرد موجود تجربہ کار بوڑھوں کو اپنا رہبر و رہنما بنا لیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ اور اگر اللہ نہ کرے آپ کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے تو بزرگوں کے تجربات پر مبنی کتب کو اپنا دوست بنا لیں۔ ایک کتاب جو آج چھپ کر مارکیٹ میں آتی ہے وہ یقینی طور پر کسی نہ کسی بزرگ کے عمر بھر کے تجربات کا نچوڑ ہو گی اور آپ کے آج کو کامیاب بنانے کےلئے بہتر رہنما ہو گی۔ ہمارا جہان خوشحالی اور نشاط کا سرچشمہ ہے۔ جہاں کہیں ہم قدم رکھیں گے۔ وہیں خوش بختی کے سونے ہمارے پاﺅں کے نیچے دبے ہوئیہیں۔ ان کے نکالنے اور جگانے کے طریقے ان تجربہ کار بزرگوں اور ماہرین کی لکھی ہوئی کتب کی مدد حاصل کر کے ان چشموں سے فیض حاصل کریں۔ بہت سے نوجوان جو اپنے علم ‘ قوت اور دولت کی بناءپر عقل و دانش کا دعویٰ کرتے ہیں اپنی زندگی میں خوش بختی کے راز کو معلوم کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
راہ ِسبق
کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ شہد کی مکھی سے سبق حاصل کرتے کہ یہ کمزور و ناتواں ثابت قدمی‘ محنت اور کارکردگی میں اپنی نظیر نہیں رکھتی ۔ پھولوں اور سبزہ زاروں میں سے شیریں مادہ کو جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے‘ حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن دوسرے تمام جانور بے پرواہی سے پھولوں اور سبزوں پر سے گزرتے ہیں۔ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ لیکن ایک حقیر شہد کی مکھی حوصلہ اور ہمت کے ساتھ ان پھولوں اور سبزوں سے ایسی بیش قیمت مٹھاس حاصل کر لیتی ہے کہ دنیا اس کی لذت و کیفیت پر سردھنتی ہے۔ کوئی شخص بیٹھے بٹھائے مفت میں خوش نصیب نہیں ہوجاتا۔ خوش بختی سونے کی طرح فراواں بھی ہے اور کمیاب بھی۔ فراواں ہے ان اشخاص کےلئے جو محنت سے جی نہیں چراتے۔ کوشش اور جدو جہد سے زمین کا سینہ چیر کر اس درخشاں اور گراں قیمت دھات کو حاصل کر لیتے ہیں اور کمیاب ہے ان اشخاص کےلئے جو چاہتے ہیں کہ بغیر کوشش و محنت کے خزانہ ہاتھ آجائے اور کوئی حادثہ ان کا ہاتھ سونے کے تودے پر رکھ دے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں