(اایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کا انتخاب نام اور جگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاق ہو گی۔ اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کرانا چاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں۔)
اس ماہ کا دکھی خط
محترم حکیم طارق محمود صاحب! السلام علیکم
میں نے آپ کا ماہنامہ عبقری لگوایا ہوا ہے اور بہت شوق سے اس کا مطالعہ کرتی ہوں۔ آج آپ کی خدمت میں اپنا ایک مسئلہ لے کر حاضر ہوئی ہوں۔ حکیم صاحب میرے اس خط کو نظر انداز مت کیجئے گا اس کو توجہ سے پڑھئے گا اور میرے لئے بہت دعا کیجئے گا۔
ہم دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی گھر میں ہوئی ہے۔ میری بہن کی شادی کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں اور ان کے تین بیٹے ہیں۔ میرے بہنوئی میری بہن کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور وہ لوگ بہترین ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں اور میری شادی کو چھ سال گزر چکے ہیں اور میری ایک بیٹی ہے جو کہ ساڑھے تین سال کی ہے۔ میرے بہنوئی جو کہ میرے جیٹھ بھی ہیں ‘وہ پنڈی میں مقیم ہیں اور وہاں ان کا اپنا گھر ہے۔ میرے سسر کی وفات ہو چکی ہے اور میری ساس حیات ہیں۔ جب میری شادی ہوئی تو میں شادی کے بعد پنڈی میں رہنے لگی یعنی ہم دونوں بہنیں ایک ہی گھر میں رہتی تھیں۔ ہم نے چار سال وہاں پر گزارے۔ ہم لوگ اکٹھے بہت خوش تھے اور سب ایک دوسرے کے کام آتے اور ہمارے گھر میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ تھا۔ ہماری ساس ہمارے کہنے کے باوجود پنڈی نہ آتی تھیں۔ میری ساس اور نندیں ہمارا اتنا سلوک اور اتفاق دیکھ کر جل جاتیں اور میرے شوہر کو اپنی بھابھی اور بھائی کیخلاف کرتیں اور میرے شوہر مجھے کہتے کہ تم کوئی کام نہ کیا کرو۔ صرف بھابھی کام کریں گی۔ جب کہ میری بہن سکول ٹیچر ہے اور میں گھر پر ہی ہوتی تھی اور میرے بہنوئی اور بہن میرے میاں سے کوئی خرچہ بھی نہ لیتے تھے اور ہم تینوں کا خرچہ بھی وہی کرتے تھے تو میں اپنے میاں سے کہتی تھی کہ آپ کوئی خرچہ بھی نہیںدیتے تو میں گھر کا کام بھی نہ کروں ‘یہ مناسب نہیں لگتا ہے۔ خیر میری ساس اور نندوں نے میرے شوہر کو میرے ‘ میری بہن‘ بہنوئی اور میری امی ‘ میرے بہن بھائیوں کے اتنا خلاف کر دیا ہے کہ وہ پنڈی چھوڑ کر چیچہ وطنی آ گئے ۔ میرا میکہ بھی پنڈی میں ہے۔ جب ہم یہاں پر آ گئے تو میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ کی جوبہنیں بیاہی ہوئی اور یہاں پر رہتی ہیں ‘وہ اپنے گھروں میں جائیں۔ اس کے نتیجے میں میری ساس اور نندوں نے میرے شوہر کو میرے خلاف کر دیا اور مجھ پر میرے شوہر ‘ساس اور نندوں نے چوری اور غلط قسم کے الزامات لگانے شروع کر دیئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اپنے بہنوئی کے ساتھ خراب ہوں اور میرے شوہر بھی ان سب الزامات میں ان کا ساتھ دیتے تھے اور مجھے مارتے ‘ پیٹتے اور گالیاں دیتے تھے۔ میں لاکھ قسمیں کھاتی مگر میرے شوہر میری بات پر یقین نہ کرتے تھیق۔ میں حیران تھی کہ میرا شوہر جو کہ مجھ سے اتنا پیار کرتا تھا ‘ اسے کیا ہو گیا ہے۔ پھر مجھے کسی نے بتایا کہ میرے شوہر اوران لوگوں نے تعویذ کر دیئے ہیں۔ پھر میری ساس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر چیچہ وطنی شہر میں مکان بنا لیا اور وہ تینوں وہیں رہنے لگیں۔ مگر اب وہ جب بھی ہمارے گھر آتی ہیں تو پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور میرے شوہر ہر دوسرے تیسرے دن وہاں جاتے ہیں تو آتے ہی لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے شوہر میری کسی بات کا یقین نہیں کرتے ہیں۔ میں سچ بھی بولوں تو یقین نہیں کرتے اور میری ساس نندیں جھوٹ بولتی ہیں تو وہ یقین کر لیتے ہیں۔ میری ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میری ساس اور نندون نے میری بیٹی پر جادو کیا جس کی وجہ سے اسے بہت زیادہ موشن لگ گئے‘ اتنے موشن لگنے سے بچی میں اس حد تک کیلشیم کی کمی ہوئی کہ اس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور اب اسلام آباد میں National Institute of Handi Caped سے اس کا علاج ہو رہا ہے۔ وہ ہر پندرہ دن بعد بچی کو بلواتے ہیں مگر میرے شوہر اور میری ساس نندیں میری بچی کا علاج نہیں کروانا چاہتے ہیں۔ وہ بچی کو علاج کیلئے نہیں بھیجتے ہیں اور ایسا کوئی ادارہ یہاں پر نہیں ہے۔ میری بچی سے صحیح چلا نہیں جاتا ہے۔ مگر میرے شوہر بچی کا علاج نہیں کرواتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کی ٹانگوں کو کچھ نہیں ہے۔ میری بچی معذور ہو رہی ہے مگر یہ لوگ مجھے علاج کیلئے بچی کو نہیں لے کر جانے دیتے۔ حکیم صاحب میں ماں ہو کر اپنی بچی کیلئے کچھ نہیں کر سکتی ہوں۔ میری بچی میری آنکھوں کے سامنے معذور ہو رہی ہے مگر میرے شوہر کوئی بات نہیں سنتے ہیں۔ میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اتنی نفرت کرتے ہیں کہ ان کو بلانا تک گوارا نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے جب ہم پنڈی میں رہتے تھے تو میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا اتنا خیال کرتے تھے اور بہت پیار و محبت سے پیش آتے تھے۔ مجھ سے میرے شوہر اتنی نفرت کرتے ہیں کہ مجھ سے بولتے بھی نہیں ہیں۔ صرف ضرورت کی بات کرتے ہیں اور اگر کبھی میں کوئی بات کرتی ہوں یعنی ضرورت کے علاوہ تو جواب نہیں دیتے ہیں۔ میں زندہ ہوتے ہوئے بھی مر گئی ہوں۔ مجھے میرے شوہر کہیں آنے جانے نہیں دیتے ہیں۔ خود بھی مجھ سے بولتے نہیں ہیں۔ گاﺅں میں کوئی ہمارے گھر نہیں آتا اور نہ ہی مجھے کسی کے گھر جانے کی اجازت ہے۔ میں قید میں رہتی ہوں۔ میری بچی اپنی خالہ اور ان کے بیٹوں کے ساتھ بہت اٹیچ ہے وہ ہر وقت روتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے یہاں پر نہیں رہنا ہے۔ میں نے پنڈی جانا ہے ۔حکیم صاحب میرے شوہر نے اپنی ماں ‘ بہنوں کے کہنے میں آکر مجھے ایک سال کے اندر دو طلاقیں دے دی ہیں اور اگر اب میں ذرا سی بھی کوئی بات کروں تو کہتے ہیں کہ ایک طلاق رہ گئی ہے وہ لے لو اور یہاں سے چلی جاﺅ۔ میں بہت پریشان ہوں ‘ میں کیا کروں‘ ایک آخری امید پر آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ اللہ کے واسطے خط کا جواب دیجئے گا۔ (فقط‘ ایک بیٹی)
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 132
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں