تڑپ کر بھوکی پیاسی مر گئی (عرفانہ یاسمین)
حامد ایک لائق اور ذہین بچہ تھا۔ دیکھنے میں بھولا بھالا اور پیارا سا‘ مگر اس میں ایک بری عادت یہ تھی کہ وہ بہت شریر تھا۔ وہ ذہین تھا مگر اپنے ذہن کو نت نئی شرارتیں سوچنے میں مصروف رکھتا اور پھر ایسی ترکیبوں سے شرارتیں کر کے دوسروں کو تنگ کرتا ۔کبھی کبھی اس کی شرارتوں سے اس کے گھر والے اور دوست پریشان ہو جاتے مگر اس کیلئے یہ معمولی بات ہوتی ۔ وہ کبھی اپنی بہن کی کتاب چھپا دیتا تو کبھی بھائی کی کاپیوں کو چھپا لیتا۔ بھائی بیچارہ کام کرنے کیلئے سارے گھر میں ڈھونڈتا پھرتا اور وہ تو اس نے تکیے کے نیچے چھپائی ہوتی تھیں۔ اکثر خود ہی انہیں نکال کر دیتا مگر اس دوران ان کا پڑھائی کا وقت ضائع ہو چکا ہوتا تھا۔ اس کا گھر ایک گاﺅں میں واقع تھا اور اس کے ارد گرد لہلہاتے کھیت‘ فصلیں اور باغ تھے۔ اس لئے وہاں پرندے بہت آتے تھے۔ وہ اکثر اپنی غلیل سے ننھے منے خوبصورت پرندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا۔ کئی دفعہ وہ زخمی بھی ہو جاتے۔اس کے ابو نے اس کی حرکتوں سے تنگ آ کر اس کی غلیل توڑ کر پھینک دی تھی اور اس پر وہ بہت تلملایا مگر بے سود ۔اس کی امی اکثر اسے جانوروں سے پیار کرنے اور ان پر ظلم نہ کرنے کی تاکید کرتیں۔
ایک دن حامد اپنے دوستوں کے ساتھ باغ میں گھوم رہا تھا۔ اس نے اچانک آم کے درخت پر بیٹھی چڑیا کو دیکھا جو اڑتی ‘ چوں چوں کرتی‘ شور مچاتی بار بار اس درخت پر آ بیٹھتی اور پھر اس کی گھنی شاخوں میں کہیں غائب ہو جاتی۔ وہ دل ہی دل میں اسے پکڑنے کا سوچنے لگا مگر وہ کبھی اس ڈال پر جا بیٹھتی کبھی اس ڈال پر او رپھر کہیں دور اڑ گئی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا وہی چڑیا منہ میں دانہ دنکا لے کر اس درخت پر آ بیٹھی۔ ساتھ ہی کچھ ننھی منی سی چوں چوں کی آوازیں سنائی دیں ‘ وہ ان آوازوں کی کھوج لگانے لگاجو آگے بڑھا تو دیکھا کہ چڑیا اپنے بچے کے منہ میں دانہ ڈال رہی ہے۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ چڑیا اڑے تو اس کے بچے پکڑ لے۔ آخر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ اِدھر چڑیا اڑی ‘اُدھر یہ دبے پاﺅں آگے بڑھا ۔جونہی یہ ہاتھ آگے بڑھاتا چڑیا کا بچہ اچھل کود کرتا تیزی سے بھاگتا ۔اِدھر اُدھر درختوں کے گھنے پتوں میں چھپ جاتا اور اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا مگر وہ ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھ کر ہاتھ آگے بڑھا کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر چڑیا کا بچہ تھک گیا اور زیادہ بھاگ دوڑ نہ کر سکا تو اسے دبوچ لیا اور خوش ہو گیا۔ گھر آ کر اس نے اسے پنجرے میں بند نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اڑ نہیں سکتا تھا‘ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کبھی اس کو پانی پلانے کی کوشش کرتا کبھی کھانا کھلانے کی لیکن اسے تو اپنی ماں چڑیا سے کھانا کھانے کی عادت تھی وہ دبکا سہما بیٹھا رہتا۔ اس کے چڑیا جیسے پر نہیں تھے‘ جو اڑسکتا۔ یونہی اڑنے کی کوشش کرتا پھر ناکام بیٹھا رہتا۔ اگلے دن اس نے دیکھا چڑیا آئی اوراس نے چونچ میں کچھ دبا رکھا تھا۔ وہ ڈری ڈری سی صحن کی دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ ایک دم اپنے بچے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی ۔وہ جلدی سے اڑتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اسے دانہ کھلانے لگی ۔یہ دیکھ کر حامد مطمئن ہو گیا کہ چلو اس طرح چڑیا کے بچے کی طرف سے بے فکری ہو گئی کہ وہ اب بھوکا پیاسا تو نہیں رہے گا۔
یہ سوچتے ہی اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ‘ وہ کچھ سوچ کر مسکراتا چڑیا کو پکڑنے آگے بڑھا ‘ چڑیا تو اپنے بچے کو دانہ کھلانے میں مگن تھی اس لئے حامد نے اسے پیچھے سے دبے پاﺅں آ کر پکڑ لیا۔ وہ شور مچاتی رہ گئی اور اس کا بچہ بھی دبک کر بیٹھ گیا‘ اسے ڈر تھا کہ چڑیا کہیں اڑ نہ جائے اس لئے دھاگہ باندھ کر دوسرا سرا ایک پتھر سے لپیٹ دیا۔
اس نے مٹی کے پیالوں میں پانی اور دانہ ڈالا۔ مگر چڑیا انہیں منہ نہ لگاتی کیونکہ وہ تو اب قیدی تھی۔ آزاد نہ تھی ‘ اس کے ابو تو کہیں باہر گئے ہوئے تھے ۔امی کے منع کرنے پر وہ ان پرندوں پر ظلم کرنے سے باز نہ آیا اور ان کو آزاد کرنے پر راضی نہ ہوا۔ دوستوں کے سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آیا۔ اس کے پیارے دوست فواد نے سمجھایا دیکھو حامد یہ پرندے آزاد فضاﺅں میں رہنے والے ہیں‘ انہیں اڑا دو۔ انہیںقید کر کے رکھنا ‘ان سے پیار جتانا نہیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا اور مسکرا کر بولا فواد تمہیں نہیں پتہ وہ میرے پاس بہت خوش ہیں۔ اس پر اس کا دوست ادا س لہجے میں بولا میرے بھائی کہتے ہیں پرندے بس آزاد فضاﺅں میں‘ ہواﺅں کے سنگ اڑتے لہراتے ہوئے ہی خوش رہتے ہیں۔ یہی ان کا فطری ماحول ہوتا ہے مگروہ ان باتوں کو نہ مانتا۔
اگلے دن وہ پتھر اٹھا کر ایک دوسری جگہ رکھ رہا تھا کہ دھاگہ پتھر سے کھل گیا اور چڑیا اڑ گئی اور وہ بے بس دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ کیا ہوا۔ پہلے تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا پھر ایک دم وہ اوپر کی طرف پرواز کرتی چڑیا کے پیچھے پیچھے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا ۔وہ تو کب کی دور اڑ چکی ہوتی مگر اس کی ٹانگ سے بندھا دھاگہ اس کی اڑنے کی رفتار کو سست کر رہا تھا کیونکہ کبھی وہ کسی چیز سے الجھ جاتا تھا اور کبھی کسی چیز سے۔ وہ بھی اسی دھاگے کو پکڑنے کی کوشش ہی میں تو دوڑا چلا جاتا تھا ۔ وہ اب کافی دور آ گیا تھا اور تیز بھاگتا بھاگتا تھک چکا تھا۔ کہاں پرندے کی اڑنے کی رفتار اور کہاں انسان کے چلنے کی ! وہ پھر بھی ہمت نہ ہاراکہ اچانک اسے لگا کہ اس کے ہاتھ دھاگہ لگ ہی گیا ہے۔ اب کیا تھا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر اگلے ہی لمحے ایک دل دوز چیخ کے ساتھ وہ نیچے گر پڑا۔ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا۔اس نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر بستر پر لیٹا تھا اور سب اس کے گرد جمع تھے۔ اس کی امی نے اسے بتایا کہ وہ چڑیا کے پیچھے بھاگتا ایک نوکیلے پتھر سے پاﺅں ٹکرا جانے کی وجہ سے کھڈ میں جا پڑا۔ وہ تو اس کی چیخ کی آواز سن کر اس کے دوست بھاگے وہاں پہنچے اور اس کو بے ہوشی کی حالت میں گھر لائے۔ کچھ دنوں بعد وہ لنگڑاتا اپنے بھائی اور دوستوں کے ہمراہ مکئی کے کھیتوںمیں سے گزرا تو اسے وہ چڑیا وہاں مری پڑی ملی۔ وہ دیکھ کر بہت پشیمان ہوا وہ تو پہلے ہی دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے کسی جانور پر ظلم نہ کرنے سے توبہ کر چکا تھا کیونکہ اب اس کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا اور اسے پتہ تھا کہ ٹانگ کو باندھ دیا جائے یا اس میں تکلیف ہو تو چلنے میں کتنی رکاوٹ ہوتی ہے۔ اصل میں دھاگہ پودوں میں الجھنے کیوجہ سے چڑیا وہاں گر گئی تھی اور تڑپ تڑپ کر بھوکی پیاسی مر گئی ۔ اس کی آنکھوں میں ایک دم آنسو آ گئے۔ اس نے گھر جا کر چڑیا کے بچے کو بڑے پیار سے تھام لیا اور اب تو وہ کچھ دنوںسے تھوڑاسا اڑنے لگاتھا ۔اسلئے اس نے باغ میں جا کر اسے آم اور آلوچے کے جھنڈ میں چھوڑ دیا جہاں وہ خوشی سے شور مچاتا اپنے جیسے ہی دوسرے پرندوں میں کہیں غائب ہو گیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں