ہمارے ایک ماہر نفسیات دوست ڈاکٹر علی کبھی کبھی بتایا کرتے ہیں کہ نئے طرز احساس کے مطابق بچوں کو بھرپور آزادی اور اظہار رائے کے مواقع دینے والے خاندان بھی کئی مسائل کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم کا ایک حالیہ واقعہ یوں سنایا۔ ” پرسوں جب میں اپنے کلینک پہنچا تو ایک خاندان میرا منتظر تھا۔ میاں بیوی دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پال پوس جدید ترقی پسند انداز میں کی۔ انہوں نے بچوں کو کھلے انداز میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے جذبوں کے اظہار کی آزادی دی۔ ان کو گھر میں مساوی درجہ دیا ۔ بچے اپنے فیصلے خود کرتے‘ اپنے لبا س خود چنتے‘ اپنے دوست اور ٹی وی پروگرام خود منتخب کرتے ‘ کھیل کود میں کوئی روک نہ تھی‘ سکول میں جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا تو والدین بچوں کا ساتھ دیتے‘ گھریلو کام کاج سے انہوں نے بچوں کو پوری طرح آزاد رکھا“۔
” میرے کلینک میں اس جوڑے کے ساتھ ان کی اس سوچ اور محنت کے ” پھل “ بھی تشریف فرما تھے۔ یہ دو بچے تھے ایک پندرہ برس کا بیزار لڑکا اور دوسری تیرہ سالہ لڑکی جو گویا اپنے آپ میں گم تھی۔ یہ مختصر سا خاندان ویسا نہ تھا جیسا اس خاندان کے بنانے والوں نے چاہا تھا۔ والدین نے سوچا تھا کہ وہ گھر میں ترقی پسند ماحول بنائیں گے۔ بچوں کو آزادی دیں گے تو نتیجے میں ایک خوش باش اور محبت کرنے والا خاندان وجود میں آئے گا۔ مگر یوں نہ ہوا اب دونوں میاں بیوی بچوں کو ساتھ لے کر میرے منتظر تھے“۔
خیر یہ کہانی انوکھی نہیں میں نے پہلے بھی اس قسم کے قصے سن رکھے ہیں۔ ویسے سارے ترقی پسند خاندان اس انجام سے دو چار نہیں ہوتے۔ اس لئے محض ترقی پسند انداز کو اس کا ذمہ دار قرار دینامناسب نہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی خامی رہ جاتی ہے پھر وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پرانے خیال کے ماں باپ کو بھی اس قسم کے مسائل در پیش رہتے ہیں۔ خاندان کی نشوونما کے پرانے ماڈل میں والدین سخت گیر اور محتاط ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر باپ خوف اور سختی کی علامت ٹھہرتا تھا۔ والدین گھر میں سارے فیصلے خود کرتے ۔ بچوں کیلئے ان کے فیصلے حتمی ہوتے۔ وہ شاذ و نادر ہی بچوں کی رائے لینے کا تکلف کرتے۔ اس انداز کے خاندانوں کے اپنے مسائل تھے اور ان کے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچوں کی اپنی الجھنیں ہوا کرتی تھیں۔
ہمارے گردو پیش کئی مستحکم خاندان بھی ہوتے ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں خوش باش اور لچک دار خاندان ہیں۔ ان کی پہچان کیا ہے؟ ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ زندگی کے اتار چڑھاﺅ کا‘ مدّو جزر کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہمت نہیں ہارتے۔ وہ خوش رہتے ہیں۔ اپنی خوشیاں بانٹتے ہیں اور خود غرض نہیں ہوتے۔ ان کا راز کیا ہے؟ آخر کوئی بات تو ہو گی کہ وہ ہمارے ہی معاشرے میں رہتے ہوئے ہمارے ہی ماحول میں سانس لیتے ہوئے اکثر خاندانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
بہت سے داناﺅں نے اس سوال کا جواب دیا ہے ۔ ہم یہاں جس جواب کو پیش کر رہے ہیں وہ کیلی فورنیا کے بچوں اور خاندانوں کے مرکزی کے ماہر جان ای اوبڈزنسکی نے دیا ہے۔ اوبڈ زنسکی صاحب سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پڑھاتے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خاندانوں کی پرورش کیلئے کسی ایک طے شدہ فلسفے سے رہنمائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ فلسفے ہمیں بنے بنائے رہنما اصول تھما دیتے ہیں مگر زندگی کا چلن یہ ہے کہ وہ کبھی ایک بات کا تقاضا کرتی ہے تو کبھی دوسری بات کا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف بلکہ کبھی کبھار متضادبھی ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح کبھی ہمیں ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو روایتی دانش سے متصادم نظر آتے ہیں۔ مگر ہمارے حالات میں وہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ آئیے یہاں ہم قدرے تفصیل سے یہ دیکھیں کہ خوش باش خاندانوں کی خاص بات کیا ہوتی ہے‘ وہ دوسروں سے‘ عام خاندانوں سے کیوں اور کیسے مختلف ہوتے ہیں۔ کیا چیز ان کو مختلف بناتی ہے۔
بچے اپنا مقام پہچانتے ہیں
خوش و خرم خاندان کوئی جمہوری ریاست نہیں ہوتا جس میں سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ سب کا ایک جیسا ووٹ ہو اور جہاں بچوں کو وہ چیز حاصل ہو جس کو مکمل یا مادر پدر آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ حقیقی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ بلا شبہ مساوی حقوق اور آزادی قابل قدر اچھائیاں ہیں۔ مگر گھر میں ان کا مفہوم فلسفیانہ مفہوم سے تھوڑا بہت مختلف ہی ہوتا ہے۔ خوش باش خاندانوں میں ‘ صحت مند خاندانوں میں‘ والدین کو شفقت آمیز قسم کی بالا دستی حاصل ہوتی ہے۔ وہ بچوں کے خیالات سنتے ہیں ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی رائے لیتے ہیں۔ مگر حتمی فیصلے خود کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل بچوں کو نہ صرف رہنمائی عطا کرتا ہے بلکہ ان کو تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے اور وہ جان جاتے ہیں کہ بالا دست کون ہے ۔
ہماری ایک عزیزہ یورپ سے ڈیزائننگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر ہی ہے۔ وہ ڈیزائننگ کی دلدادہ ہے اور اس شعبے میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتی ہے۔ دس سال پہلے جب اس کی عمر سات آٹھ سال تھی ایک روز اچانک اس نے پڑھائی جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ماں نے سبب پوچھا تو کہنے لگی کہ وہ بور ہو گئی ہے۔ ماں سیانی تھی اس نے کہا اچھا ٹھیک ہے تم اگر پڑھائی جاری نہیں رکھنا چاہتی تو چھوڑ دو مگر ابھی نہیں‘ تین ماہ تک اپنا سبق جاری رکھو پھر اگر چھوڑنا چاہو تو ٹھیک ہے۔ بچی نے سبق جاری رکھا اب جیسا کہ میں نے بتایا وہ ڈیزائننگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
والدین بچوں کی زبان بولتے ہیں
ہم عام طور پر بھول جاتے ہیں کہ بچے‘ ننھے بالغ ‘ نہیں ہوتے۔ وہ مختلف انداز میں بولتے ہیں۔ مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ مختلف انداز میں رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔
بلا شبہ بعض بچے بال کی کھال اتارا کرتے ہیں۔ ان کا انداز کچھ اس قسم کا ہوتا ہے...... ” آپ نے مجھے ڈرائنگ روم میں بال پھینکنے سے منع کیا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ باورچی خانے میں بال نہ پھینکوں“۔ بچہ جب اس قسم کے حیلے کرتا ہے تو عموماً اس کو ماں یا باپ کے عمومی حکم کا مطلب پوری طرح معلوم ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھر کے اندر گیند نہ پھینکے۔ چھوٹے بچوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی دنیا” اب اور یہاں“ تک محدود ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں