کم عمری سے ہی بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ’’اجنبی لوگوں سے بات نہ کریں‘‘ مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اجنبی کا مطلب نہیں سمجھتے جو لوگ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ تو نہایت محبت اور دوستانہ ماحول میں بات کرتے ہیں
بچوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کردیا
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں ایک ماں ہوں‘ میرے بچے سکول جاتے ہیں‘ آج کل بچوں سے متعلق جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے والدین پریشان رہتے ہیں۔ میں نے بچوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی محروم کردیا ہے، میں انہیں کھلی جگہوں پر سائیکل نہیں چلانے دیتی، انہیں بازار سے آئس کریم لینے کیلئے بھی نہیں جانے دیتا، غرض میں انہیں آزادی کے ساتھ کوئی کام نہیں کرنے دیتی۔ مجھے ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ میرے بچوں پر کوئی بھیڑیا نما انسان حملہ نہ کردے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم میں صرف بالغ افراد ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو جرم کے شکار بچوں سے عمر میں صرف چند سال بڑے ہوتے ہیں، ایسے میں کیا کیا جائے؟ والدین پریشان ہیں، وہ نہیں جانتے کہ کس طرح ان کی حفاظت کی جائے، آخر کسی نہ کسی دن تو انہیں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا ہے۔ صرف انہیں یہ بتانا بھی کافی نہیں ہے کہ اجنبی شخص کچھ دے تو اس سے کچھ لے کر نہیں کھانا چاہیے۔آج کل حالات زیادہ خراب ہوگئے ہیں انہیں یہ بھی سکھانا چاہئے کہ ایسے موقع پر انہیں شور مچانا چاہیے، بھاگ جانا چاہیے اور خود اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔
اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ
بعض بھیڑئیے (یہ ایسے انسان کو بھیڑیا کہنا چاہوں گی) بچوں کو ان کا نام لے کر پکارتے ہیں اور بچے سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے جاننے والے ہوں گے۔ بعض رشتہ دار یا محلہ دار جنہیں بچہ اچھی طرح جانتا ہے وہ ہی آستین کے سانپ بن جاتے ہیں‘ والدین بچوں کو سمجھائیں کہ کبھی کسی اجنبی ‘ جاننے والے کی باتوں میں نہ آئیں، انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ اگر کوئی بھی مدد طلب کرے یا کہیں ساتھ جانے کو کہے تو اس سے ہوشیار ہوجائیں۔بچوں کو یہ بار بار بتایا جائے کہ ماں باپ سے کوئی بات نہ چھپائیں۔ اجنبی‘ ہمسایہ یا رشتہ داروں میں سے جو زیادہ محبت سے پیش آئے‘ قریب آنے کی کوشش کرے یا قابل اعتراض جگہ پر چھوئے تو آپ کو ضرور بتائیں۔ بچوں کو گھر کے ٹیلیفون نمبر، پتہ ضرور یاد کرائیں‘ اپنی گاڑی کا نمبر یاد کرائیں، انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ خطرے کے وقت وہ شور مچائیں اور جو راہگیر نظر آئے اس سے مدد مانگیں۔ بعض بچوں کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ کوئی غلط بات ہونے والی ہے،انہیں بتایا جائے کہ وہ اپنی چھٹی حس پر اعتماد کریں اور ممکن ہو توخطرے کی جگہ سےبھاگ جائیں۔ جب وہ کوئی پریشانی یا بے چینی محسوس کریں تو والدین کو بھی ضرور بتائیں، اس کے جواب میں والدین کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے، بچوں کو یہ کہہ کر ٹالنا نہیں چاہئے کہ ’’فلاں تو بہت اچھا ہے‘ وہ ایسا نہیں‘ تمہارا وہم ہے‘‘ بچے کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس کے والدین اس کی فکر کرتے ہیں اس کی پریشانی پر توجہ دیتے ہیں اور اس نے انہیں بتا کر صحیح کیا ہے۔
اجنبی لوگوں سے بات نہ کریں
ایک تیرہ سالہ لڑکی کی والدہ نے بتایا کہ ایک دن اس کی بیٹی اپنی سہیلی کی سالگرہ میں گئی تھی وہاں پر کچھ اجنبی لڑکے بھی تھے جن کی وجہ سے وہ بے چینی محسوس کررہی تھی۔ جب اس کی بے چینی بڑھی تو بچی نے مجھے گھر چلنے کا کہا‘ میں نےوجہ پوچھی تو اس وقت تو اس نے کچھ نہیں کہا البتہ گھر آنے کے بعد مجھے بتایا کہ وہاں فلاں شخص مجھے غلط نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تم نے جو کیا اچھا کیا لیکن کل اپنی سہیلی سے معذرت کرلینا اور اپنے آنے کی وجہ بھی بتا دینا۔ والدین یقیناً اپنے بچوں کو خوش اخلاق اور باادب ہونا سکھاتے ہیں مگر اس کے ساتھ انہیں یہ بھی بتائیں کہ اگر انہیں کسی جگہ کوئی خطرہ محسوس ہو خواہ دوست کا گھر ہو‘ رشتہ دار کا گھر ہو یا کسی قابل اعتماد ہمسائے کا فوراً اپنے خطرے سے کسی کو آگاہ کریں۔ کوئی برامانے پروانہ کریں، کیونکہ ان کا تحفظ اخلاق سے زیادہ اہم ہے۔ کم عمری سے ہی بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ’’اجنبی لوگوں سے بات نہ کریں‘‘ مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ (باقی صفحہ نمبر57 پر)
(بقیہ:سنیے!بچوں کو بھیڑیوں سے بچائیں)
اجنبی کا مطلب نہیں سمجھتے جو لوگ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں وہ تو نہایت محبت اور دوستانہ ماحول میں بات کرتے ہیں لہٰذا یہ سکھانا بہتر ہے کہ بغیر ماں باپ گھر والوں کو بغیر بتائے ادھر ادھ نہ جائیں۔ تفریحی پارک، کھانے پینے کی جگہیں‘ ویڈیوگیمز یا کھیل کی دوسری جگہیں ایسے مقامات ہیں جہاں بچے پیسوں یا کھیل کے لالچ میں بھٹک سکتے ہیں لہٰذا بچوں کی نگرانی کریں انہیں کم عمری ہی سےیہ بھی سکھایا جائے کہ بغیر والدین کو بتائے کسی سے کوئی چیز نہ لیں۔ اگر کہیں جانا ہے مثلاً پارک وغیرہ تو بڑے بھائی یا والدین کے ساتھ جائیں اور والدین کو بھی چاہیے بچے کی خواہش کے مطابق اس کبھی کبھی کسی پارک یا گیمز کھیلنے کی جگہ پر لے جائیں تاکہ بچہ کسی اور کےساتھ نہ جائے۔ قارئین! یہ چند باتیں تھیں جو میں آپ کیلئے لکھ دیں‘ شاید کسی ماں کا جگرگوشہ میرے ان تحریروں کی وجہ سے کسی بھیڑئیے کے ہتھے چڑھنے سے بچ جائے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور ان کی نسلوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں