’’بیٹا اگر تمہارے بابا زندہ ہوتے تو تمہیں ایسا کچھ کرنے نہیں دیتے‘‘ مگر یہ بیٹا یہ سب کرنا تمہاری مجبوری ہے۔ دیکھو بیٹا! تمہاری بہنیں بھی سارا دن دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور میں بھی محلے والوں کے کپڑے سلائی کرلیتی ہوں
غربت کی چکی میں پستا یتیم دانش
آج پھر وہ ایک کامیابی کی منزل طے کرچکا تھا۔ دانش اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی آٹھ بہنیں تھیں سب اس سے بڑی تھیں۔ بابا رحمان اس وقت ان کو اکیلا چھوڑ گئے جب دانش صرف دو سال کا تھا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو اس نے اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو غربت کی چکی میں پستے ہوئے دیکھا۔ وہ یہ سب دیکھ کر بہت کڑھتا اور اس کا دل خون کے آنسو روتا۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں بہت بڑا سوچنے لگا تھا۔ وہ غربت کی وجہ سے پڑھ تو نہ سکا مگر وہ ذہین بہت تھا۔ سب اس کی ذہانت کی داد دیتے تھے۔ وہ ایسے کہ اگر محلے کے کسی بچہ کے کھلونے خراب ہو جاتے وہ یا تو بیچ دیتے یا پھر باہر پھینک دیتے وہ ان کو اٹھا کر اپنے گھر لے آتا اور ان کی مرمت کرتا بالآخر وہ اس کھلونے کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اس وجہ سے سب اس کی ذہانت کی داد دیتے تھے۔
ماں میں ضرور کام کروںگا‘ آپ کا سہارا بنوں گا
وہ اکثر سوچا کرتا تھا کہ اگر میرے بابا زندہ ہوتے تو وہ مجھے ضرور پڑھاتے مگر وہ بہت مایوس تھا۔ وہ سوچ تو سکتا تھا لیکن پڑھ نہیں سکتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں نے کہا بیٹا گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیںاگر تم کوئی کام کرلو تو شاید گھر کے حالات بہتر ہو جائیں یہ کہتے ہوئے اس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور پھر آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ’’بیٹا اگر تمہارے بابا زندہ ہوتے تو تمہیں ایسا کچھ کرنے نہیں دیتے‘‘ مگر یہ بیٹا یہ سب کرنا تمہاری مجبوری ہے۔ دیکھو بیٹا! تمہاری بہنیں بھی سارا دن دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور میں بھی محلے والوں کے کپڑے سلائی کرلیتی ہوں مگر پھر بھی ہمارا گزر بسرمشکل ہورہا ہے اور یہ سب تمہارے سامنے ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی ماں کی آنکھوں سے پہلے سے زیادہ آنسو بہنے لگے ۔ وہ ماں کو چپ کراتے ہوئے بولا ’’ماں میں ضرور کام کروں گا اور آپ لوگوں کا سہارا بنوں گا‘‘۔ اور اپنی یتیمی کسی پر ظاہر نہیں کروں گا اور میں دنیا والوں کے لیے ایک سبق بنوں گا کہ یتیم کبھی بے سہارا نہیں ہوتے ان کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے۔
یتیم کے منہ سے بددعانکلی تو کہیں کا نہ رہوں گا
اگلے دن دانش ایک پرچون کی دوکان پر گیا جہاں پر پہلے سے ساتھ آٹھ لڑکے کام کررہے تھے۔ دانش نے دکان کے مالک سے کہا ’’چچا اگر آپ مجھے کام پر رکھ لیں تو آپ کی مہربانی ہوگی‘‘ دوکان کا مالک اچھا انسان تھا اس نے دانش سے چند معلومات لیں اور پھر دوکان پر کام کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ بہت خوش ہوا خوشی خوشی کام کرنے لگا وہ اگرچہ بہت ذہین تھا اس لیے کام سیکھ گیا جلدی ہی۔ دوسرے لڑکوں سے زیادہ تیز کام کرنے لگا۔ اسی وجہ سے دوسرے لڑکے اس سے حسد کرنے لگے اور اس کو دکان سے نکلوانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔ مگر مالک ان کی ایک نہ سنتا اسے پتہ تھا کہ یتیم کے منہ سے اگر بددعا نکل گئی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا۔ بلکہ اس کو حضورﷺ کی ایک حدیث یاد تھی جس میںارشاد ہے ’’اگر کوئی شخص کسی یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھے گا تو اس کے لیے ایک حج کے برابر ثواب ہے‘‘ اس لیے دکان کا مالک یہ نیکی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور باقی لڑکوں کی سنی ان سنی کردیتا۔
ماں دعا کرنا ‘ مقصد پورا ہوجائے
وقت گزرتا گیا۔ دانش کے گھر کے حالات بہتر ہورہے تھے اور دانش بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا جارہا تھا۔ اس دوران اس نے اپنی دو بہنوں کی شادی بھی کردی۔ لیکن اچانک دانش نے پرچون کی دکان پر کام کرنا چھوڑدیا۔ اس کی ماں اور دکان کے مالک نے دانش کو کئی بار سمجھایا مگر اس کے ذہن میں جو کچھ چل رہا تھا اس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ ایک دن صبح سویرے دانش ماں کی دعائیں لیکر گھر سے چل پڑا جبکہ دانش نے ماں کو صرف اتنا کہا کہ ماں دعا کرنا کہ میں جس مقصد کیلئے نکل رہا ہوں وہ پورا ہو جائے۔ وہ یتیم ضرور تھا مگر ماں کی دعائیں اور اللہ کی مدد اس کے ساتھ تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ اپنا بچپن کا خواب پورا ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس کو کھلونوں کی ایک بڑی فیکٹری میں بطور مکینک ملازمت مل گئی۔ وہ اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوا۔ وہ صبح سے شام تک کھلونے ٹھیک کرتا اور شام کو گھر واپس آجاتا۔ وہ اس کام سے بہت خوش تھا۔ کچھ عرصہ بعد دانش فیکٹری کے مالک سے ملا اور اس سے کہا سیٹھ صاحب میں کام چھوڑنا چاہتا ہوں کیونکہ میں اب اپنا کام کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنا کام شروع کرلوں۔
دانش کھلونا انڈسٹری
اس میں مجھے آپ کی بھی ضرورت ہوگی۔ مالک نے دانش سے کہا ہاں بیٹا جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو میں آپ کے لیے حاضر ہوں۔ دانش نے مالک کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ پہلے پہل تو اس نے ایک چھوٹی سی دوکان لی اور کام شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ اس کا کام بڑھتا گیا اس نے ضرورت محسوس کی اب اسے ملازم رکھنے پڑیں گے اس نےشروع میں دو ملازم رکھے اور پھر کام کرنے کے لیے دکان چھوٹی پڑنے لگی اور پھر دانش دوکان کی جگہ فیکٹری کا مالک بن گیا۔’’دانش کھلونا انڈسٹری‘‘ کے نام سے یہ فیکٹری دنیا بھر میں نئے کھولنے متعارف کرارہی ہے اور اس فیکٹری کے کھلونے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ الفاظ ملک کے مشہور اخبار کے تھے جس میں دانش کا تعارف شائع ہوا تھا۔اس طرح دانش نے ایک نئی منزل طے کرلی اور آج اس کی ماں بہت خوش تھی کہ دانش نے یتیم ہونے کے باوجود ہمت نہ ہاری اور آج وہ دوسرے یتیم بچوں کے لیے ایک سبق تھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں