خود اعتادی دراصل اپنی ذات پر بھروسے کا نام ہے۔ جو آدمی کوئی کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے وہ خود اعتماد ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ جس آدمی میں کوئی کام کرنے کا یہ حوصلہ جتنا زیادہ ہوگا، اس میںاتنی ہی زیادہ خود اعتمادی ہوگی۔
انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے انسان کو اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے مختلف کاموں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے لیکن کسی کام میں کامیابی کاانحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ آدمی کس حد تک اس کام کو کرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتا ہے۔ کام کرنے کے اس حوصلے اور جذبے کا دوسرا نام ’’خود اعتمادی‘‘ یا ’’قوتِ ارادی ہے‘‘۔
خود اعتمادی کیا ہے؟
خود اعتادی دراصل اپنی ذات پر بھروسے کا نام ہے۔ جو آدمی کوئی کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے وہ خود اعتماد ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ جس آدمی میں کوئی کام کرنے کا یہ حوصلہ جتنا زیادہ ہوگا، اس میںاتنی ہی زیادہ خود اعتمادی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خود اعتمادی کی بدولت انسان بہت سے کام لیتا ہے اور اس صلاحیت کی غیر موجودگی میں اس کے ہاتھ سے بہت سے کا م نکل جاتے ہیں۔مختلف افراد میں خود اعتمادی کی سطح مختلف ہوتی ہے لیکن خوداعتمادی سے محروم افراد کے لیے کئی ایک جسمانی مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً خود اعتمادی سے محروم فرد جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو اس کے ردعمل کے نتیجے میں خوف کا احساس بڑھ جاتا ہے، نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، افسردگی اور سردمہری چھا جاتی ہے۔ سماجی سطح پر خود اعتمادی میں کمی کی وجہ سے اندرون و بیرون خانہ تعلقات متاثر ہوتے ہیں، کاروبار یا ملازمت میں کارکردگی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔یہ خود اعتمادی ہی ہے جو خوشی اور افسردگی، کامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں خود اعتمادی انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے، لیکن اسے کہاں سے حاصل کیا جائے؟
اپنی ذات پر بھروسہ یا خود اعتمادی
اپنی ذات پر بھروسہ یا خود اعتمادی کوئی مادی شے نہیں کہ جس کی ایک خاص ہیئت ہو۔ یہ تو دراصل اس طرزِ فکر اور طریق زندگی کا نام ہے جو آپ کسی کتاب میں پڑھ کر یا کسی استاد سے سیکھ کر اپنی زندگی میں اپنا سکتے ہیں اور اس طرح زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر ڈال سکتے ہیں۔
زندگی کی رکاوٹیں‘ خوداعتمادی حاصل کرنے کا ذریعہ
خود اعتمادی میں ترقی کی بدولت آپ وہ کچھ کرسکتے ہیں جو آپ نے کرنے کا کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔زندگی کی رکاوٹیں تو خود اعتمادی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ رکاوٹیں تو ترقی کا زینہ ہیں۔ اگر آپ ان رکاوٹوں کو عبور کرلیتے ہیں تو آپ اس دنیا میں سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کوئی کام کرتے وقت آدمی پریشان بھی ہوتا ہے اور اسے ناکامی کا خوف بھی ہوتا ہے لیکن خود اعتمادی میں اضافہ کرکے آپ اس پریشانی اور خوف پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایسے سات زریں اصول تحریر کررہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کرکے کامیاب زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
7زریں اصول! کامیاب زندگی کا آغاز
(1) ذمہ داری قبول کیجئے:ذمے داری قبول کرنا خود پر بوجھ ڈالنا نہیں بلکہ خود کو کسی کام کے لیے راضی اور تیار کرنا ہے۔ جب آپ کسی کام کی ذمے داری قبول کرتے ہیں تو آپ محض ایک نئی زندگی ہی شروع نہیں کرتے بلکہ اپنے گرد ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں۔ اس نئی دنیا کی تخلیق ہی آپ کو کچھ کرنے کا شعور بخشتی ہے۔(2)مضطرب رہیے:آپ کو کل دن میں انٹرویو کے لیے جانا ہے یا کسی جلسے میں خطاب کرنا ہے تو ہوسکتا ہے آپ اس سے اس قدر پریشان ہوں کہ رات کو سونا بھی مشکل ہو جائے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ ذہنی کیفیت خوف کی علامت نہیں بلکہ یہ دراصل اضطراب (Anxiety) ہے۔والٹر اینڈرسن خوف اور اضطراب کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے کہتاہے کہ خوف کسی واضح اور موجود خطرے کا ردعمل ہوتا ہے جیسے کسی دشمن نے آپ کی گردن پر چھرا رکھا ہو۔ جب کہ اضطراب دراصل کسی متوقع خطرے کے احساس کا نام ہے مثلاً کسی کام میں ناکامی۔ خوف اس وقت ختم ہو جاتا ہے کہ جب خطرہ ٹل جائے لیکن اضطراب تو لامتناہی ہےلیکن یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہی اضطراب آپ کو مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیاروں سے مسلح کرتا ہے۔ ان ہتھیاروں میں توانائی، آگہی اور حسن آبدار شامل ہیں چنانچہ اپنی اعصابی توانائی اور دماغی توجہ کو بے بنیاد پریشانی پر ضائع کرنے کے بجائے اسے دبائو کا باعث بننے والے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیجئے۔ عملی اقدام سے زیادہ تیز رفتاری سے کوئی بھی چیز اضطراب کو ختم نہیں کرتی۔ اسی کے ساتھ اپنے آپ سے یہ بھی سوال کیجئے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟
اضطراب پر قابو پانے کی ایک تدبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ تیس دن کے لیے اپنی پریشانیوں کی ڈائری لکھیں۔ آپ جب بھی خود کو مضطرب محسوس کریں اسے اپنی ڈائری میں درج کرلیجئے۔ ابتدا میں لکھنے کا یہ کام مشکل محسوس ہوگا۔ آپ جب اپنی پریشانی کو لکھنے کے لیے بیٹھیں گے، میں کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ اس کے نتیجے میں آپ کو اس بات کا احساس ہوگا کہ اصل مسئلہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔(3)مقابلہ کیجئے: اپنی کارکردگی بڑھانے کا ایک بہت ہی اچھا گُر یہ ہے کہ آپ اپنے بہتر آدمی سے مقابلہ کریں۔ بہتری کا یہ معیار آپ کی اس صلاحیت کے حوالے سے ہونا چاہیے جس میں آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً آپ کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور اپنی بائولنگ بہتر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے سے بہتر بائولر سے مقابلہ کریں اس سے سیکھیں۔ یہی معاملہ ہر کھیل اور زندگی کے ہر شعبے کا ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو غلط فہمی کا شکار ہیں!
کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خود اعتمادی کا تعلق تیز دوڑنے، اچھا پہننے یا زیادہ پیسہ کمانے سے ہے تو یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ دراصل خود اعتمادی حاصل کرنے کے لیے ہم نے ’’مقابلے‘‘ کا گُر بتایا ہے، لیکن اس ’’مقابلے‘‘ کا اصل مقصد کسی سے آگے بڑھنا نہیں بلکہ اپنی خوداعتمادی میں اضافہ کرنا اور اپنی شخصیت کی مثبت تشکیل ہونا چاہیے۔
(4)غلطی، موقع ہے: غلطی، بڑی ہو یا چھوٹی آدمی کو اس کا افسوس ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس غلطی پر انتہائی افسردہ اور غمگین ہو جائیں کہ کسی کام کے قابل نہ رہیں۔ اس کے برخلاف اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا جذبہ پیدا کیجئے، ان غلطیوں سے خود اعتمادی میں اضافہ کیجئے۔ لیکن اپنی غلطیوں سے کیسے کام لیا جائے؟ اس کے لیے تین کام کیجئے:(۱)اپنی غلطیوں کو تسلیم کیجئے۔ بہ الفاظ دیگر غلطیوں کو نظر انداز مت کیجئے۔ اگر آپ ایک
غلطی کو مان کر اس پر توجہ کرتے ہیں تو آپ اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ (۲)اپنی غلطیوں میں جھانکیے۔ اپنی غلطی پر خود کو مت کوسے اور نہ اس سے دل برداشت ہوئیے۔ اپنی غلطی کا شروع سے مطالعہ و موازنہ کیجئے۔ (۳)غلطی کی اصل وجہ کو نظر میں رکھیے، اس کے حل کی کوشش کیجئے ’’کامیابی‘‘ ہمیشہ ناکام کوشش کی اصلاح پر حاصل ہوتی ہے۔(5)دلیر بنئے:ہر وہ تجربہ جس میں آپ کسی خوف کا سامنا کرتے ہیں، آپ کو طاقت، ہمت اور خود اعتمادی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر آپ کو کسی کام سے خوف محسوس ہوتا ہے تو آپ خود کو وہ کام کرنے کی ترغیب دیجئے اور پھر اس کام کو کیجئے۔ اصل خود اعتماد کام کو کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بہادر اور دلیربن کر کام کرنے سے اس کام کو کرنے کا خوف رفع ہو جاتا ہے۔(6)کامیابی کی امید رکھیے: زندگی میں جتنی اہمیت کامیابی کی ہے، اتنی ہی کامیابی کے لیے امید کی ہے۔ دراصل کامیابی کی امید اور توقع ہی پر آدمی کامیابی حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قابل کیا ہے کہ ہم اپنی کامیابی کا جائزہ لے کر اس کی امید رکھیں اور اسی کامیابی کی امید پر عمل کیے جائیں۔ جب آپ کوئی کام (مقصد) متعین کرتے ہیں تو اس بات کا ذہن میں ضرور رکھیے کہ آپ کیا ہیں؟ آپ کے پاس کیا کچھ ہے؟ دوسروں کی نظر میں آپ کی کیا حیثیت ہے؟پہلے دو سوالات کے جوابات آپ دے سکتے ہیں جب کہ تیسرے اور آخری سوال کا تعلق آپ کے اردگرد موجود افراد سے ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دوسروں کی رائے پر خوش یا افسردہ نہ ہوں۔ اپنے رشتے داروں کے خوابوں کی تعبیر کرنے کی فکر و کوشش مت کیجئے۔(7)خطرات مول لیجئے: خطرات مول لینے سے بھی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ’’نقصان‘‘ کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ خطرات آدمی کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اگر آپ کوئی ایسا خطرہ مول لیتے ہیں کہ جس میں بڑے نقصان کا خطرہ ہے تو یہ بھی آپ کا ایک مثبت قدم ہے۔ اسی طرح اگر خطرہ مول لینے کے باوجود آپ اس سے خطرہ خواہ فائدہ حاصل نہیں کرتے تو بھی خود اعتمادی کی صورت میں آپ کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خطرات مول لینا، خود اعتمادی کی علامت ہے اور ان خطرات کی قیمت ادا کرکے ہی آپ خود اعتمادی حاصل کرتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں