مائیں ہر کام بسم اللہ سے شروع کرتیں باوجود ان پڑھ ناخواندہ ہونے کے دینی دنیاوی علم و شعور سے مالا مال تھیں۔صحت بیماری موسمی حالات کے پیش نظر کیا کھانا اور پینا اور پرہیز انہیں معلوم تھا‘ قصے کہانیاں‘لوریاں ،قرآن کا ناظرہ پڑھنا، بزرگوں کے ایصال ثواب ‘ان کی تاریخ پیدائش سب یاد تھیں۔
50 سال پہلے کا امن و سکون اور خوشگوار دور
آج سے تقریباً 50سال پہلے امن وامان سکون کا کیا خوشگوار ملنسار زمانہ تھا آج جیسی ترقی ، بربادی، بے سکونی، لوٹ مار نہ تھی۔ سیدھے سادے انسان تھے‘ کچے سادہ اور چھوٹے چھوٹے رہائشی مکانات بغیر بجلی‘ پانی‘ سیوریج اور جدید سہولیات کے تھے۔ بھائی چارہ ‘دوستی بالکل ایک کنبہ رشتہ دار ہی لگتے تھے‘ خوشی غمی میں یہ بناوٹ‘ لگائو ‘چھپائو ‘دھوکہ دہی نہ تھی۔ شادی بیاہ غمی میں ایک دوسرے سے برتن و دیگر ضروریات باہمی سے گزارہ کرلیتے تھے۔ ٹینٹ سروس کیٹرنگ نہ تھی۔ بچہ کی پیدائش پر حسب استطاعت خوشی کا اظہار گڑ، بتاشے، ریوڑیاں، پھلیاں، مکھانے اور مٹھائی لڈو بانٹ کر کیا جاتا۔ ہر عورت خالہ ماسی اور ہر بندہ کو چچا کہتے بلکہ سمجھتے اور اس کے حکم کی تعمیل فرض سمجھ کر کی جاتی ‘کسی قسم کی چوں چراں حکم عدولی نافرمانی کا تصور بھی نہ تھا۔ عورتیں مردوں کا نام بوجہ شرم‘ عزت و احترام نہ لیتیں بلکہ منے کے ابا‘ گڈو(بیٹی) کے ابا کے نام سے پکارتیں ۔ہمارے ماں باپ بزرگوں اور ہمارے ہوتے ہوئے احتراماً ایک چار پائی پر نہ بیٹھتے‘ میل جول اٹھنے بیٹھنے میں بات چیت میں ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ۔
ناخواندہ علم و شعور سے مالامال مائیں
اٹھارہ بیس برس کی عمر میں بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں بھولے بھالے رہتے‘ صحت مند نوجوان ہوتے تھے‘ رنگ سرخ و سپید ہوتے‘ پاکیزہ خیالات ہوتے۔ مائیں ہر کام بسم اللہ سے شروع کرتیں باوجود ان پڑھ ناخواندہ ہونے کے دینی دنیاوی علم و شعور سے مالا مال تھیں۔صحت بیماری موسمی حالات کے پیش نظر کیا کھانا اور پینا اور پرہیز انہیں معلوم تھا‘ قصے کہانیاں‘لوریاں ،قرآن کا ناظرہ پڑھنا، بزرگوں کے ایصال ثواب ‘ان کی تاریخ پیدائش سب یاد تھیں۔ اسلامی تہوار بھی سب معلوم تھے کہ اس مہینے کونسا اسلامی تہوار آنا ہے۔ فرقے ، مسالک معلوم نہ تھے بھائی چارہ‘ ایک دوسرے کے دکھ سکھ سانجھے بلکہ ایک ہی خاندان برادری کے لوگ معلوم ہوتے تھے۔
یہ’’جھونگا‘‘ کیا ہوتا تھا؟ جان لیجئے
ایک روپیہ میں سولہ آنے‘ آٹھ دونیاں‘ چار چونیاں‘ دو اٹھنیاں‘ آنے میں چار پیسے وہ بھی موری والے‘ آنہ میں چھ پائیاں دوٹکے دھیلے اور دمڑی کے سکے ہوتے۔سستا دور تھا دکان سے چیز لانے پر دکاندار بچہ کو ’’جھونگا ‘‘بھی دیتا جو قمیض کا پلو پھیلا کر لیا جاتا ۔ وہ سنہری دور تھا جب پاکستانی ایک روپیہ اور سعودی چار ریال برابر ہوتے ۔ پٹرول لیٹر کی بجائے چار لیٹر میں بکتا ‘ضروریات زندگی سستی اور وافر مقدار میں باآسانی مل جاتیں۔ دودھ چار آٹھ آنے کلو ملتا۔ گھی دو پونے دو روپیہ میں سیر‘ ڈالڈا گھی سے پرہیز کیا جاتا لوگ دیسی گھی‘ دیسی بڑے بکرے کا گوشت اور غریب غرباء اونٹ گائے کا گوشت کھالیتے‘ ہر طرف چین ہی چین اور سکون تھا۔ لڑائی جھگڑا پہلے تو ہوتا ہی نہیں تھا اگر کبھی ہوبھی گیا توبڑے بوڑھے بزرگ معاملہ رفع دفع کردیتے۔ بڑوں کااحترام اور چھوٹے فرمانبردار ہوتے۔
ایک دوسرے کی عزت و آبرو اپنی سمجھتے
ایک آنے کی ماچس جو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے آتی تھی اس قدر احتیاط سے استعمال کرتے گوٹے کی آگ سلگتی رکھتے جس سے دیگر پڑوسی بھی مستفید ہوتے ایک دوسرے سے بھائی چارہ تھا۔ عورتوں اور نوجوان لڑکیاں چرخہ‘ کروشیا‘ سلائی کڑھائی‘ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتیں۔ ایک دوسرے کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھا جاتا‘ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کو اپنی آبرو سمجھتے۔ 1965ء کی جنگ میں کوئی لڑکی اغواء نہ ہوئی ‘نہ زیادتی، چوری ڈاکہ ہوا بلکہ جیلوں کے قیدی باوجود آزاد ہونے کے واپس جیل آگئے۔شرافت کا دور تھا‘ سادگی و بھائی چارہ تھا۔ ایک دوسرے کا احساس‘ کھانے‘ پینے‘ ملنے جلنے میں تھا کسی کو محسوس ہی نہ ہوتا کہ میری کیا رشتہ داری ہے ان سے۔
ایکسیڈنٹ کیا ہوتا ہے؟ کبھی سنا ہی نہ تھا
بسیں شاذ و نادر تھیں‘ ڈیزل سے چلتی تھیں لکڑی کی باڈی ہوتی ۔ لاری بس میں شیشوں کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھتے درمیان میں سامان وغیرہ رکھا جاتا‘ درمیان میں ایک پھٹا عورتوں کیلئے ہوتا امراء کیلئے اپر کلاس ہوتی ‘ بس ڈرائیور کے سائیڈ اور پیچھے کی جانب ہوتی۔ بس کو پہلے سٹارٹ کرنے کیلئے کلیزہینڈل گھماتا انجن کےنیچے آگ جلاتے‘ جب گاڑی کا انجن سٹارٹ ہوجاتا تو بھاگ کر اپنی سیٹوں پر بیٹھ جاتے۔ گاڑی کی سپیڈ حد رفتار 40,30 میل گھنٹہ ہوتی سڑک ریل گاڑی کی طرح درمیان میں اینٹوں والی اور ٹائروں کی جگہ پر لک یا ڈامر تارکول کی ہوتی۔ ہارن ربڑ کا ہوتا جو بوقت ضرورت ڈرائیور بجاتا۔ایک لاری گاڑی دوسرے آنے والی لاری گاڑی کو کراس کرتے ہوئے کھڑی ہوجاتی بات چیت کے بعد ڈرائیور گاڑی آگے بڑھا لیتے کبھی کبھی کوئی گاڑی لاری الٹ جاتی وہ بھی موڑ کاٹتے ہوئے‘ ایکسیڈنٹ کا کبھی سنا بھی نہ تھا۔
فوتگی ایک گھرمیں ہوتی‘ سوگوار تمام محلہ ہوتا
محلہ میں فوت ہونے پر تمام محلہ سوگوار ہوتا‘ فوتگی والے گھرکھانا نہ پکتا تھا‘ دوسرے لوگ بھائی چارہ میں کھانا بھیجتے۔
شادی بیاہ پر ایک دوسرے کے برتنوں میں بارات کو کھانا کھلایا جاتا‘ کوئی اضافی خرچ وغیرہ نہ ہوتا‘ سامان جہیز وغیرہ فرنیچر کراکری کپڑے اس قدر نہ ہوتے‘ سکون ہی سکون اور خوشیاں ہوتیں اور دولہا دلہن اپنی زندگی باآسانی شروع کردیتے۔ بزرگوں کی دعائیں‘ محبتیں‘ ہوتیں۔ مشکلات میں مشورے ایک دوسرے کو سمجھا دینا ہر کوئی اپنا فرض سمجھتا۔ طلاق شاذو نادر ہی ہوتی کیونکہ آزادی میل ملاپ محبت ہوتی سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے اور ملنے جلنے والے ہوتے تھے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی عزت کرتا ۔ سکول صرف اور صرف سرکاری ہوتے تھے‘بچوں کا لباس (یونیفارم) شلوار قمیص ہوتی جس کے بٹن کبھی نہ ہوتے بلکہ گدام ہوتے۔ بستہ‘ پاجامہ گھٹنوں سے پھٹ جانے پر مائیں خود سلائی کردیتیں۔ کل سرمایہ علم ایک سلیٹ پتھر کی‘ ایک قاعدہ اور تختی دوات قلم ہوتا۔ جوتے جوگر بھی نہ تھے اکثر پائوں سے ننگے سکول آتے‘ امیر غریب ٹاٹ پر بیٹھتے‘ مزید سہولت ملتی تو بنچ لکڑی کے ہوتے۔ اساتذہ کی عزت اس قدر کی جاتی کہ اسے عزت اور مال وافر مقدار میں مل جاتے ایک اعلیٰ مقام ہوتا شاگرد استاد کی تعظیم ماں باپ سے بھی بڑھ کر کرتا۔(باقی صفحہ نمبر52 پر)
(بقیہ:بھولی یادیں سنہرے دن‘ انوکھی باتیں)
ماں باپ بچہ کو عرش سے فرش پر لاتے استاد اسے دوبارہ عرش پر پہنچا دیتا اور ساس سسر اپنی بیٹی دیکر زندگی گزارنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ قلفیاں گول گپے چنے وغیرہ آنے ٹکے میں باآسانی مل جاتے کل خرچہ دو پیسہ ٹکہ یا زیادہ سے زیادہ ایک آنہ ہوتا۔ بچہ کے بال مائیں خود تراش دیتیں جیسے بکریوں کے سیڑھیوں والے بال ہوتے ہیں۔ سرمہ آنکھوں سے بہہ رہا ہوتا اور تیل وہ بھی سرسوں کا کانوں کی لوئوں تک ٹپک بلکہ بہہ رہا ہوتا۔اب تو استاد کا نام ہی ہے رٹہ ہے رات دن پڑھائی اور اس قدر روپیہ اور پھر بے قدری اللہ تعالیٰ ایمان دے‘ والدین پڑھاتے پڑھاتے تنگ اور بچہ پڑھ پڑھ کر تھک جاتا ہے۔ ہم اساتذہ کی دل و جان سے عزت کرتے ان کے گھریلو کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے‘ بچوں کو کھلاتے مرچیں کوٹ کردیتے جنگل سے لکڑیاں لاکر دیتے۔ لیکن شاباش ہے ان اساتذہ اکرام کو کلاس روم میں کسی سے کوئی لحاظ نرمی نہ کرتے سب سے پہلے سبق و کام وغیرہ دیکھتے اور پوچھتے تھے ٹیوشن خلاصہ گائیڈ کا نام تک میں معلوم نہ تھا اور نہ ہی ان کی ضرورت محسوس ہوگی۔ کیا مخلص محنتی بے لوث انسان تھے اب تو اساتذہ کی وہ عزت و تکریم کہاں۔ ان کا پڑھانا سب آج بھی یاد ہے دعائیں شامل حال ہیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل و کرم اور مغفرت کرے آمین۔ریل گاڑیاں وقت کی پابندی تھی کالے دھوئیں والے انجن(تیل کوئلہ پانی سے چلنے والے) تھے حیدر آباد سے فیصل آباد کا اس وقت کرایہ 20روپے تھا۔ والد صاحب اس زمانہ میں دو نیلے نیلے سو والے نوٹ والدہ صاحبہ کو دیتے اس وقت سو کا نوٹ ہر کسی کے پاس نہ تھا جبکہ اس قدر سکے موجود تھے اب تو مہنگائی ہی مہنگائی ہے لوگ نہ جانے کس طرح اپنے بچوں اور گھر کو سنبھالتے اور چلاتے ہیں۔ بچے نارمل پیدا ہوتے اب تو آپریشن کے ذریعے ہوتے ہیں جس میں 35سے 30 ہزار کا خرچہ معمول بات ہے۔ دیسی مرغی سال میں کبھی کبھی عید، شادی، منگنی کسی خاص عزیز کے آنے میں ذبح کی جاتی انڈہ فروخت نہ ہوتا تھا بلکہ ادھار ہوتا کہ ہمارے مہمان آنے پر ہمیں دے دینا۔ اب تو موجیں ہی موجیں ہیں صبح برائلر شام برائلر اس کی خوراک اس قدر گرم اور تیز ہے کہ یہ مرغی خودچل بھی نہیں سکتی کھانے والے کا کیا حال ہوگا اللہ جانے؟ بیماریاں جن کا ڈاکٹر کو بھی پتہ نہیں ہوتا ہورہی ہیں۔ وجہ صرف ایک برائلر گوشت دوسرا فریج کا ٹھنڈا پانی۔ وہ مٹی کے گھڑے کہاں ہیں؟ قلعی والے برتن اب ختم ہوگئے جس کی وجہ سے خارش دیگر بیماریاں لوگوں کو لاحق ہوگئی ہیں۔کوئی وقت تھا جب کوے مہمان کی آمد کی اطلاع دیتے اور لوگ ان کو چوریاں کھلاتے خوش ہوتے۔ مہمان کو ہفتہ ہفتہ رکھا جاتا ان کی جوتیاں اور برقعہ چھپا دیا جاتا اصرار کیا جاتا کہ مزید اور دن رہیں۔ مہمان کو بچوں سمیت لاری اڈہ چھوڑ کر جاتے‘ لاری چلنے تک کھڑے رہتے‘ لاری چلنے پر روتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے گھر لوٹتے۔ کیا سنہرا وقت تھا‘ چڑیوں کی چہچہانے کی آوازیں درختوں کی ٹھنڈک موسموں کا اعتدال اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی و فضل کرم تھا۔ اخراجات کم پریشانیاں کم اور لوگوں کی محبتیں ایک نعمت سے کم نہ تھیں۔ لوگ فراغت کیلئے شہر سے باہر جاتے پیدل چلتے یا بڑی حد سائیکل وہ بھی کسی کسی کے پاس۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں