جن خواتین کی فگر متناسب ہے وہ تو سردیوں کا انتظار شاید اسی لیے کرتی ہوں گی کہ انہیں دیدہ زیب سویٹر پہن کر مزید خوبصورت ہونے کا موقع مل جائے گا۔ کہتے ہیں کہ سردیوں کا موسم تیزرنگوں کا موسم ہوتا ہے اور یہ رنگ سب سے زیادہ سویٹرز ہی میں نظر آتے ہیں
موزوں لباس کے انتخاب کا گُر
عورت خواہ کسی بھی دیس یا مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہو‘ دیدہ زیب ملبوسات میں اس کی جان اٹکی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے موسم بدلتے ہیں‘ ویسے ویسے ان کے لباس میں تبدیلی بھی ناگزیر ہوتی جاتی ہے۔ خصوصاً موسم سرما کی آمد آمد ہو تو موسم کی وجہ سے انہیں کھلی چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کپڑے اور اسٹائل ایک ہی وقت میں اپنے اوپر لاد لیں۔ اس طرح ایک تو سردی سے بچاؤ ممکن ہوجاتا ہے دوسرا زیادہ سے زیادہ فیشن ایبل لگنے کی کسک بھی مٹ جاتی ہے۔ اگر آپ بھی فیشن ایبل انداز اپنانا چاہتی ہیں تو ڈھیر سارے کپڑوں کو لادنے کی بجائے وقت اور ضرورت کے مطابق موزوں لباس کے انتخاب کا گُر سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ کی تیاری فیشن اور ضرورت کے عین مطابق ڈھل جائے گی۔
موسم سرما کے تقاضے
پاکستان کے کچھ حصوں میں سرد موسم خشک ٹھنڈک سے بھرپور ہوتا ہے اور یہاں تندو تیز ہوائیں بھی نہیں چلتیں جبکہ دیگر کچھ شہروں میں موسم صبح اور شام کے اوقات میں ہی کچھ سرد ہوتا ہے جبکہ یہاں کے دن معتدل موسم لیے ہوتے ہیں تاہم تیز ہوائیں یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بہرحال آپ سردیاں کسی بھی علاقے میں گزاریں لیکن مناسب انتظام کے بغیر آپ اس موسم سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔ اب اس موسم میں کس طرح کے لباس اپنائے جائیں۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
شلوار قمیص
سردیوں میں موٹے کپڑے کے شلوار قمیص بنائے جاتے ہیں یہ تو سب ہی کو معلوم ہے۔ بازار میں مختلف اقسام کے بھاری ملبوسات دستیاب ہیں جنہیں اپنی پسند کے مطابق خریدا اور پہنا جاسکتا ہے۔ عام پہننے کے ملبوسات سے لے کر موٹے ریشمی کپڑے بھی مل جاتے ہیں جنہیں موسم کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر زیب تن کیا جاسکتا ہے۔ رہی بات ان ملبوسات پر ڈیزائننگ کی تو فیشن کی بات دراصل شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے۔ ان ملبوسات کو فٹ نہیں سلوانا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ سردی بڑھ جائے تو سکن ٹائٹ کپڑے ان ملبوسات کے نیچے استعمال کئے جاتے ہیں جو سردی سے بچاتے ہیں۔ اندر سے پہننے والی ٹی شرٹس چست ناپ کی استعمال کریں اور ان کے گلے اور بازو قمیص سے بڑے ہوں تاکہ نظر نہ آئیں۔ سردیوں کے شلوار قمیص کے بازو اور گلے ڈیزائننگ فائدہ نہیں دیتی کیونکہ اکثر یہ ڈیزائننگ سویٹر یا شال کے نیچے چھپ جاتی ہے لہٰذا قمیص کے دامن پر یا شلوار پر ہی ڈیزائننگ کروائیں۔
موسم سرما !سویٹر اور جیکٹس
جن خواتین کی جسمانی ساخت متناسب ہے وہ تو سردیوں کا انتظار شاید اسی لیے کرتی ہوں گی کہ انہیں دیدہ زیب سویٹر پہن کر مزید خوبصورت ہونے کا موقع مل جائے گا۔ کہتے ہیں کہ سردیوں کا موسم تیزرنگوں کا موسم ہوتا ہے اور یہ رنگ سب سے زیادہ سویٹرز ہی میں نظر آتے ہیں تاہم فیشن کی تبدیلی سے اب سویٹرز کے رنگوں میں بھی دھیماپن آگیا ہے اور زیادہ تر ڈیزائنرز پیسٹل رنگوں کو ہی بہتر سمجھنے لگے ہیں۔
ہاتھ سے بنے سوئیٹرز کی روایت دم توڑ چکی
پہلے پہل ہاتھ سے سوئیٹر بننے کی روایت عام تھی اور تقریباً ہرگھر میں ہاتھ سے ہی سوئیٹر بُنے جاتے تھے‘ اس وقت نہ تو اتنے انداز تھے اور نہ ہی اتنے رنگ موجود تھے۔ آج یہ کام مشینوں کے ذریعے ہونے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ اب بہت ہی اچھے معیاری اور مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں سے سجے سوئیٹرز اور جیکٹس مل جاتی ہیں۔ کوٹ‘ جرسی‘ واسکٹ‘ اوورکوٹ‘ جیکٹ‘ قمیص‘ ٹی شرٹ نما سوئیٹرز بنانا اور خریدنا اب عام سی بات ہے۔ یہ اتنے رنگوں میں دستیاب ہیں کہ آپ انہیں آسانی سے میچنگ کرکے بھی منتخب کرسکتی ہیں۔ سادہ سوئیٹرز کے علاوہ اب سوئیٹرز اور جیکٹس پر کڑھائی بھی کی جانے لگی ہے اور وہ بھی اتنی خوبصورت کہ پھر آپ سادہ سے سوٹ کے ساتھ ان سوئیٹرز کو پہن کر کسی بھی تقریب میں بھی شرکت کرسکتی ہیں۔ جیکٹ میں بھی خواتین کے لیے بہت اچھی ورائٹی دستیاب ہے۔ خصوصاً کراچی جیسے شہروں میں جہاں موسم کبھی سرد ہوتا ہےا ور کبھی گرم ایسے میں آگے سے کھلنے والے سوئیٹرز اور جیکٹس ہی موزوں رہتی ہیں۔
سردیوں کے ٹراؤزر اور آج کا فیشن
سردیوں کے موسم میں جینز کے اور موٹے کپڑے کے ٹراؤزر ہمیشہ ان ہوجاتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سردیوں سے بچاتے ہیں اور سوئیٹرز کے ساتھ لمبی قمیصیں اور شلوار سنبھالنا کسی جھنجھٹ سے کم نہیں لگتا۔ ایسے میں خواتین کا اولین انتخاب کھلے اور موٹے ٹراؤزر ہی ہوتے ہیں‘ آج کل بازار ایسے ٹراؤزر سے بھرے پڑے ہیں جن کے پہننے میں کوئی قباحت بھی نہیں‘ بالکل کھلے اور موٹے ہیں۔ عام پہننے والے لباس سے لے کر تقاریب کے لیے فینسی ٹراؤزر بھی موجود ہیں جو کہ فیشن کا حصہ بھی ہیں۔
شال! ہماری ثقافتی اقدار کی علمبردار
شال کا فیشن تو پاکستان میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ تقریباً ہر عورت شال کا استعمال کرنے لگی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ شالیں ہماری ثقافتی اقدار سے مماثلت رکھتی ہیں۔ سادی شالوں کے ساتھ ساتھ فینسی شالیں بھی دستیاب ہیں اور آج بھی فیشن کا حصہ ہیں تاہم ان کے ڈیزائنوں اور لمبائی چوڑائی میں فرق آتا رہتا ہے۔ اب ہاتھ سے بنی ہوئی شالوں کے ساتھ ساتھ مشین سے بنی ایسی شالیں فیشن کا حصہ ہیں جن میں نقش و نگاری کم سے کم ہوتی ہے اور رنگوں کے استعمال میں بھی احتیاط برتی جارہی ہے۔
مفلر‘ اسکارف‘ ٹوپی وغیرہ
پہلے پہل ٹوپیاں اور ہیٹ صرف بچوں کیلئے ہی آتے تھے تاہم اب ٹین ایج خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان خواتین بھی ٹوپیاں سر پر رکھنے لگی ہیں۔ خصوصاً تعلیمی اداروں میں ان کا استعمال زیادہ دیکھا جارہا ہے۔ اونی ٹوپیوں کے ساتھ ساتھ مفلر اور اسکارف بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ خصوصاً ایسے علاقے جہاں مسلسل ہوائیں چلتی ہیں وہاں مفلر اور اسکارف ایک اہم ضرورت بن جاتے ہیں اگر آپ کی جیکٹ یا سوئیٹر رنگ برنگا ہے تو ایک رنگ کا مفلر استعمال کریں اور اگر مفلر رنگ برنگ ہے تو ملٹی کلر یا کنٹراسٹ کرکے سوئیٹر پہنیں کیونکہ آج کل فیشن کا یہی تقاضا ہے۔
چمڑے کےجوتے اور سردیاں
چمڑے کے جوتے سردیوں کے (باقی صفحہ نمبر52 پر )
(بقیہ: موسم سرما کا فیشن اور ہماری ثقافت!خواتین یہ گُر سیکھ لیں!)
لیے بہترین ہیں۔ آج کل آگے سے نوکیلے جوتے اور کوٹ شوز زیادہ پسند کیے جارہے ہیں۔ بلیک اور براؤن کے ساتھ ساتھ بے بی کلر کے جوتوں کے مختلف ڈیزائنز اب فیشن کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان سردیوں میں اگر آپ نے نیلا اور سفید جوتا پہنا تو آپ کے پاؤں فیشن کے عین مطابق ڈھل جائیں گے۔ فیشن کے ماہرین کے مطابق آنے والے سال کے لیے نیلے رنگ کے جوتے سب سے زیادہ فیشن میں رہیں گے۔ سردیوں میں ٹراؤزرز کے ساتھ یہ رنگ اور بھی زیادہ بھلا محسوس ہوتا ہے تاہم شلوار قمیص پہننے والی خواتین ان کا استعمال اپنے لباس کو مدنظر رکھ کر ہی کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ (صائمہ سعید‘ لاہور)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں