لڑکی کے ماں بنتے ہی اس کی اور خاندان کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ بچے کے دنیا میں آتے ہی خوشیوں کی بارات اتر آتی ہے تو اس کی صحت اور حفاظت کی فکر بھی لاحق رہتی ہے۔ خود ماں کی صحت اور سلامتی پر توجہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے خاص طور پر پہلوٹی کے لیے یہ احتیاطیں زیادہ ضروری ہوتی ہیں۔ برصغیر میں پہلا ہفتہ جسے عام طور پر ’’چھٹی‘‘ کہتے ہیں، احتیاط کا زیادہ متقاضی ہوتا ہے۔ علاج معالجے کی جدید سہولتوں کے باوجود پاکستان میں بچوں کی مجموعی اموات میں سے پچاس فیصد ولادت کے پہلے ہفتے اور پچاس فیصد پہلے مہینے میں واقع ہوتی ہیں۔ اس لیے مائوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی احتیاط سے کام لیں اور بچے کا بھی بہت خیال رکھیں۔
زچگی کے بعد گھر کے کام
ضروری ہے کہ اگر زچگی نارمل ہوئی ہے تو وہ پہلے روز مکمل آرام کرے۔ اس کے بعد وہ احتیاط سے چل پھر سکتی ہے۔ اس سے اس کی ٹانگوں میں دوران خون بہتر ہو جائے گا اور وہ رگوں کے پھولنے کی شکایت سے محفوظ رہے گی۔ آٹھ دس دن بعد ماں گھر کا ہلکا کام کاج کرسکتی ہے، مگرزچگی آپریشن سے ہوئی ہوتو ایسی صورت میں معالج کے مشورہ پر عمل ضروری ہے۔
زچگی کے پہلے ہفتے صرف کمرے میں ٹہلیے
زچگی کے پہلے ہفتے میں ورزش سے بچنا چاہیے، صرف کمرے میں ٹہلنا کافی ہوتا ہے۔ حمل کے دوران وزن میں اضافے سے فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ رفتہ رفتہ اضافہ کم ہو جائے گا۔
نومولوداور اس کی غذا کا خیال رکھیں!
یہ بہت ضروری ہے کہ ماں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلائے اور یہ عمل پیدائش کے پہلے گھنٹے ہی سے شروع ہو جانا چاہیے۔ اس عمل سے پہلے ضروری ہے کہ ماں اپنے ہاتھ اور سینہ دھولیا کرے اور بچے کو باری باری دونوں طرف سے دودھ پلائے۔ بچہ رفتہ رفتہ دودھ پینے کا اپنا معمول مقرر کرے گا جو عام طور سے تین چار گھنٹے ہوتا ہے اور جب بھی بھوک اسے ستانے لگے گی وہ رو کر اس کا اظہار کرے گا۔ نومولود بچے کو خاص طور پر دودھ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں کو اپنے دودھ کے علاوہ بچے کو کوئی اور چیز نہیں کھلانی چاہیے، یہاں تک کہ سخت گرمی کے باوجود پانی بھی نہیں پلانا چاہیے۔ ماں کے دودھ میں بچے کے لیے درکار پانی کافی مقدار میں ہوتا ہے۔
زچگی کے بعد ماں کی غذا کیسی ہونی چاہیے؟
ماں کے لیے گھر میں تیار ہونے والا عام کھانا کافی ہوتا ہے بشرطیکہ کھانا متوازن ہو۔ ہاں ماں کو اپنی غذا کی مقدار میں تھوڑا اضافہ کرلینا چاہیے یعنی 550حرارے زائد کھانے کے علاوہ 25گرام پروٹین زیادہ استعمال کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں مائوں کو اصلی گھی اور خشک مغزیات بکثرت کھلائے جاتے ہیں۔یہ انداز درست نہیں ہے۔ ماں کو روٹی، چاول، دالوں، سبزیوں، پھل، دودھ، انڈوں اور گوشت پر مشتمل متوازن غذا کا ملنا ضروری ہے۔ اصلی گھی دن بھر میں زیادہ سے زیادہ تین چائے کے چمچوں کے برابر کھلانا کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح دس، گیارہ بادام اور پستے وغیرہ کافی ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں زیادہ گھی، مغزیات اور ضرورت سے زیادہ غذا ہی کے نتیجے میں ہماری خواتین موٹی ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان کا دبلا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
فولاد کی ضرورت:حمل کے دوران فولاد کی زائد مقدار کا استعمال زچگی کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے بلکہ اس وقت اس کی مقدار میں مزید اضافہ ضروری ہو جاتا ہے تاکہ زچگی کے دوران ہونے والے جریان خون سے ہونے والی فولاد کی کمی دور ہو جائے۔ اس کے علاوہ بچے کو اپنا دودھ پلانے کی وجہ سے بھی فولاد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ماں بننے کے بعد صفائی بہت ضروری ہے
ماں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ صاف ستھری رہے۔ نارمل زچگی کی صورت میں وہ غسل کرسکتی ہے۔ اسے صاف ستھرا، لیکن ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ لباس پہننا چاہیے اور اچھی کوالٹی کے سینیٹری نیپکن یا صاف کپڑا استعمال کرنا چاہیے تاکہ مقامی چھوت سے محفوظ رہے۔
بچے کا رکھ رکھائو:سب سے پہلا کام بچے کا وزن کرنا ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت اس کا وزن کرکے درج کرلینا چاہیے۔ اس کے مطابق اس کی صحت کا خیال رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بچے کا وزن کم از کم 2.8کلو گرام ہونا چاہیے۔ ٭کسی بھی اچھے زچگی خانے سے بچے کی بڑھوتری کا فارم مل جاتا ہے۔ اس میں درج معلومات کے مطابق عمل کرنے سے اس کی اچھی صحت کے لیے جتن اور تدابیر آسان ہو جاتی ہیں۔٭بچے کو اپنے دودھ کے علاوہ کسی قسم کے وٹامن یعنی حیاتین وغیرہ نہیں دینے چاہئیں۔ ان سے فائدے کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے۔٭بچے کو روزانہ نہلا کر صاف ستھرے آرام دہ کپڑے پہنائے جائیں۔ کپڑوں کے سلسلے میں موسم کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ جاڑوں میں گرم کپڑے اسے ٹھنڈ اور نزلہ زکام سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈیزرٹ کولر کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے۔ نومولود بچے کو اس کی ہوا کی زد میں نہیں رکھناچاہیے۔ ٭مچھر ہر جگہ ہیں، بچے کو ان سے محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے مچھر جالی کا استعمال ضرور کرنا چاہیے۔٭بچے کو اس کے پنگھوڑے میں لٹائے رکھنا بہتر ہے۔ بہت زیادہ لوگوں کا اسے گود میں لینا مناسب نہیں ہوتا خاص طور پر نزلے، زکام اور کھانسی میں مبتلا افراد کو اسے گود میں لینے سے احتیاط کرنی چاہیے۔٭بچے کو خشک رکھنا بھی ضروری ہے یعنی وہ جب بھی فارغ ہو اس کے کپڑے بدل دینے چاہئیں۔ اس طرح اس کی جلد خراش اور جلن سے محفوظ رہے گی۔ پوتڑے بدلنے کے بعد نیم گرم پانی سے صاف کرکے جگہ خشک کرنے کے بعد پائوڈر لگا دینا بہتر رہتا ہے۔ اسی طرح اس کی بغل میں بھی پائوڈر چھرک دینا چاہیے۔ ٭نال کو کبھی چھیڑنا نہیں چاہیے۔ یہ سوکھ کر خود جھڑ جاتی ہے۔ اس پر گرم کرکے ٹھنڈا کیا ہوا کھوپرے کا تیل کبھی کبھی لگاتے رہنا مناسب ہوتا ہے اس پر کبھی مٹی، پانی اور گوبر وغیرہ نہیں لگانا چاہیے۔ یہ انتہائی خطرناک کام ہے۔ اس سے بچہ کزاز یعنی ٹیٹنس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
بچے میں خطرناک علامات
٭دودھ چوسنے میں دقت٭رونے کی آواز میں تبدیلی، کم زور آواز میں رونا ٭تیز تیز سانس لینا (فی منٹ 60 سانس) ٭نیلے ہونٹ، ناخن یا چہرہ٭جلد اور آنکھوں کی پیلی رنگت یعنی یرقان٭آنول کی سوجن، سرخی یا رطوبت کا اخراج ٭دورے اور اینٹھن، کسی عضو کا ٹیڑھا ہونا یا کھنچنا ٭پیدائش کے چوبیس گھنٹوں بعد پیشاب نہ کرنا٭غنودگی٭آنکھوں سے پانی کا مسلسل بہنا ٭دودھ پینے کے بعد بچہ نرم اجابت کرتا ہے۔ یہ معمول کے مطابق
ہوتا ہے لیکن پانی جیسے دست جن میں خون بھی ہو، توجہ اور علاج کے محتاج ہوتے ہیں۔ ٭بچے کو پیدائش کے پہلے ہفتے میں دق وسل( بی سی جی) اور پولیو کی خوراک دے دینی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں