میں نے دریا میں چھلانگ لگادی‘ جیسے ہی میری آنکھ کھلی تو میں ایک خشک گاؤں میں تھا‘ جہاں کھیت تھے‘ رہٹ چل رہے‘ آدمی ہل چلا رہے‘ میں حیران و پریشان انہیں دیکھ رہا تھا کہ میں نے تو دریا میں چھلانگ لگائی تھی میں کہاں پہنچ گیا ہوں؟
زمین اندر بھی مخلوق! مجھے سمجھ نہ آتی
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری رسالہ بہت شوق سے پڑھتا ہوں‘ خاص طور پر علامہ لاہوتی پراسراری صاحب کا مضمون ’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ تو میرا پسندیدہ ترین سلسلہ ہے۔ علامہ صاحب جو فرماتے ہیں میرا اس پر سوفیصد ترین یقین ہوتا ہے۔ علامہ صاحب پر میرا یقین اس دن اور بھی بڑھ گیا جب میں نے اپنے ایک بزرگ سے اپنے علاقہ کا مشہور واقعہ سنا جس کی تصدیق نسل درنسل بزرگ کرتے چلے آرہے ہیں۔علامہ لاہوتی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اس زمین کے اندر بھی ایک اور مخلوق رہتی ہے جو انسان ہے اور نہ ہی جن ہے‘ پڑھ کر بڑی حیرانی ہوئی تھی کسی نے یقین اور کسی نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا اور یقین کرنے میں تذبذب کا شکار رہے لیکن میں آپ کو جو واقعہ سنانے جارہا ہوں۔ اس کو سن کر سب قارئین کو یقین آجائے گا کہ واقعی زمین کے اندر بھی مخلوق آباد ہے۔
ہمارے گاؤں کے ساتھ دریا بہتا ہے دریا کے بالکل کنارے ایک قوم نول آباد ہے‘ دریا کے کنارے پر ہی ان کی بستی ہے ان کی خواتین دریا کنارے بیٹھ کر کپڑے وغیرہ دھولیتی ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس قوم کے بزرگ اپنے بزرگوں سے سنا ہوا واقعہ سناتے ہیں کہتے ہیں دو تین نسل پہلے دریا تھوڑے فاصلے پر بہتا تھا لیکن اچانک انہیں محسوس ہوا کہ دریا کروٹ بدل رہا ہے انہوں نے محسوس کیا کہ اگر دریا اسی طرح کروٹ بدلتا رہا تو ایک ہفتے کے اندر ہماری ساری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا‘ ہمارے گھر کھیت کھلیان سب زیر آب آجائیں گے وہ سخت سراسیمہ ہوگئے اب کیا کیا جائے۔ ضلع جھنگ میں جناب صالح حیات صاحب کے دادا شاہ جیونہ شاہ کے زمانے کی بات ہے وہ بہت بڑے باعمل بزرگ اور صاحب کرامات اللہ والے تھے۔ نول برادی ان کی بڑی عقیدت مند تھی وہ ان کے پاس اپنا یہ مسئلہ لیکر گئے انہوں نے غور سے ان کی بات سنی‘ ان کو خط نما پرچہ لکھ کردیا اور فرمایا تم لوگوں میں سے جو بہادر اور نڈر نوجوان ہو اس کو خط دے کر تم ایک کشتی میں سوار کرکے دریا میں کشتی چھوڑ دو‘ کشتی خودبخود چلتی ہوئی جب دریا کے درمیان میں پہنچ جائے وہ نوجوان دریا میں چھلانگ لگا دے سب بستی والے حیران و پریشان واپس لوٹ آئے اور سوچنے لگے دریا میں چھلانگ لگانے کے بعد تو وہ نوجوان ڈوب جائے گا لیکن اللہ والے بزرگ اتنا کہہ کرخاموش ہوگئے تھے‘ بستی والوں کومزید کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ واپس آگئے‘ ایک نڈر نوجوان کی جیب میں خط ڈال کر ایک چھوٹی کشتی میں اس کو سوار کرکے کشتی کو اللہ کے بھروسہ چھوڑ دیا گیا سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے‘ تین دن کے بعد وہ کشتی والا نوجوان ان کو دریا کنارے بیہوش پڑا ہوا ملا۔
زمین کے نیچے ایک الگ ہی جہان تھا
اس کو اٹھا کر گھر لے گئے‘ ہوش میں لانے کی تدبیریں کی گئیں‘ نوجوان ہوش میں آگیا‘ اس نے بتایا کہ جب میری کشتی دریا کے عین درمیان میں پہنچ گئی تو میں نے دریا میں چھلانگ لگادی‘ جیسے ہی میری آنکھ کھلی تو میں ایک خشک گاؤں میں تھا‘ جہاں کھیت تھے‘ رہٹ چل رہے‘ آدمی ہل چلا رہے‘ میں حیران و پریشان انہیں دیکھ رہا تھا کہ میں نے تو دریا میں چھلانگ لگائی تھی میں کہاں پہنچ گیا ہوں؟ اتنے میں دو تین لمبے تڑنگے آدمی آئے جو مجھے سپاہی لگ رہے تھے‘ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک خوبصورت سے مکان میں لے کر پہنچ گئے‘ وہاں میں نے دیکھا ایک تخت پراونچی پگڑی باندھے ایک آدمی بیٹھا ہے وہ ان لوگوں کا سردار لگتا تھا مجھے اس کے حضور پیش کردیا گیا‘ اس نے پوچھا اے آدم زاد کیا مسئلہ ہے؟ میں نے ڈرتے کانپتے خط ان کے حوالے کردیا‘ خط پڑھ کر اس نے کہا ٹھیک تمہارا کام ہوجائے گا لیکن ہماری ایک شرط ہے جب گندم کی فصل تیار ہو تم لوگوں نے تین من گندم دریا کے اندر ڈالنی ہے جب تک تم اس شرط کو پورا کرتے رہو گے دریا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا لیکن جونہی تم نے اس میں سستی کی پھر تباہی کے خود ذمہ دار ہوگے۔ تین دن رات انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھا خوب میری خاطر مدارت کی‘ گزشتہ رات میں سویا تو مجھے کچھ معلوم نہیں میری آنکھ تم لوگوں کے درمیان کھلی ہے۔ سب لوگ حیرانی سے اس کی رو داد سن رہے تھے لیکن وہ نوجوان تین دن کے بعد وفات پاگیا۔ آج تک دریا اسی جگہ بہہ رہا ہے‘ ہر سال فصل پر تین من گندم دریا میں ڈالنا وہ بستی والے اپنا فرض سمجھتے ہیں اور سکون سے رہ رہے ہیں۔
نوٹ: یہی واقعہ ڈیڑھ صدی پہلے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ثابت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں