Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

کاش یہ ایمانی صفات پھر سے پیدا ہوں

ماہنامہ عبقری - جولائی 2019ء

اس شخص نے ہمارے باپ کوقتل کیا ہے
دو نوجوان سیدنا عمرؓ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جاکر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی طرف انگلی کرکے کہتے ہیں ’’یا عمرؓ یہ ہے وہ شخص!‘‘ سیدناعمرؓ ان سے پوچھتے ہیں، کیا کیا ہے اس شخص نے؟ ’’یاامیرالمومنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے‘‘ کیا کہہ رہے ؟ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔سیدنا عمرؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟’’وہ شخص کہتا ہے‘‘ ہاں امیر المومنین مجھ سے قتل ہوگیا ہے ان کا باپ‘‘ ’’کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں‘‘یا عمرؓ ان کا باپ اپنےاونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا میں نے منع کیا باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مرگیا۔’’پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزاُ‘‘سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثہ کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبہ کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا، نہ ہی یہ پوچھا گیا کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ تعلق کسی معزز قبیلہ سے تو نہیں؟ معاشرہ میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمرؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہوتو عمرؓ پر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملہ پر عمرؓ کو روک سکتا ہے، حتیٰ کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آکھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
مجھے جانے دیجئے! میں واپس آجاؤں گا
وہ شخص کہتا ہے ’’اے امیر المومنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آئوں کہ میں قتل کردیا جائوں گا ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آجائو ں گا۔
’’سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ’’کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جاکر واپس بھی آجائے گا‘‘مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اس کی؟کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملہ پر عمرؓ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کے لیے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔محفل میں موجودہ صحابہؓ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورت حال سے خود حضرت عمرؓ بھی متاثر ہیں کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال دیا ہے کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کردیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا اس کو بغیر ضمانتی کے جانے دیا جائے؟
مقتول کا خون رائیگاں جائے گا
واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا! خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر وہ سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ’’معاف کردو اس شخص کو‘‘نہیں امیرالمومنین، جو ہمارے باپ کا قتل کرے اس کو چھوڑ دیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں، لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟ حضرت ابوذرغفاریؓ اپنے زہد و صدق سے بھرپور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہوکر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!‘‘سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔ ابوذر، اس نے قتل کیا ہے۔چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہوا، ابوذرؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔ عمرؓ: ’’جانتے ہو اسے؟‘‘ ابوذرؓ ’’نہیں جانتا اسے‘‘ عمرؓ ’’تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہوں؟ 

ابوذرؓ ’’میں نے اس کے چہرےپر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاللہ یہ لوٹ کر واپس آجائے گا‘‘ عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا‘‘ ’’امیر المومنین، پھر اللہ مالک ہے، ابوذرؓ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں‘‘ سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پاکر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لیے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد ان کے لیے کوئی راہ دیکھنے، اور قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔ اور پھر تین راتوں کے بعد، عمرؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے۔انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لیے جمع ہوچکا ہے۔ حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آکر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔’’کدھر ہے وہ آدمی؟‘‘ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المومنین ’’ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں‘‘ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے، محفل میں ہوکا عالم ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جارہا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کردیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جارہا، نہ ہی کسی کی حیثیت باصلاحیت کی پیمائش ہورہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آرہی ہے۔مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آجاتا ہے بیساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ’’اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ آتا تو ہم تیرا کیا کرلیتے، نہ ہی کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا‘‘’’امیر المومنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آگیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کردیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے‘‘۔سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کرکے پوچھا ’’ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟‘‘ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے‘‘سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اورپھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا ’دکیا کہتے ہو اب؟‘‘نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا ’’اے امیر المومنین ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہےکہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھالیا گیا ہے‘‘سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گررہے تھے ’’اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے‘‘’’اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے‘‘ اور ’’اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے‘‘ اور اے امیرالمومنین اللہ تجھے تیرے عدل و رحم دلی پر جزائے خیر دے۔محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہوگئیں تھیں‘‘ یہ وہ مبارک دور تھا جب ہر صاحب ایمان ایک سے بڑھ کر ایک تھا، ان ایمانی قطروں کی وجہ احکم الحاکمین کی طرف سے پورے عالم میں ان کو حکمرانی کا تاج عطا کیا گیا۔ کاش ان ایمانی صفات کا کوئی عشر عشیر آج امت میں پیدا ہو جائے!!۔

 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 782 reviews.