رشوت دینا اور لینا خود سے ختم کریں دیکھیں پورے ملک سے رشوت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ملاوٹ کرنا خود سے ختم کریں دیکھیں پھر پورے ملک سے ملاوٹ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر یہ سب نہیں کرسکتے تو خدارا حکمرانوںاور اداروں کو گالیاں دینا بھی آپ کو زیب نہیں دیتا۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ تعالیٰ دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائیں اور عبقری کے ذریعے آپ جو پیغام پھیلارہے اس کا اجر اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں عطا کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں ‘ آپ کے عمل میں خیرو برکت عطا فرمائیں ۔میں ماہنامہ عبقری بہت شوق سے پڑھتی ہوں‘ خاص طور پر آپ کا کالم ’’ایڈیٹر کے قلم سے‘‘ اور آپ کا ’’طبی آرٹیکل‘‘ بہت ہی شوق سے پڑھتی ہوں۔ آپ کا کالم ’’حال دل‘‘ جس کا عنوان تھا ’’حکومت کااقتدار الٹ دیں اور سڑکوں پر نکل آئیں‘‘پڑھا تو بڑی شرم آئی‘ آج میرا لکھنے کا مقصد اس تحریر کے ذریعے اپنے آپ کو سنوارنا ہے اور لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ اس مضمون کو پڑھ کر میرے ذہن میں معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناطے کئی ذمہ داریاں نظر آرہی ہیں چونکہ میری تحریر کا مقصد اپنے آپ کو سنوارنے کا ہے تو میں آج حکومت کو گالیاں دینے اور حکومت کو برا بھلا کہنے سے توبہ کرتی ہوں اور اپنے سے وابستہ ہرشخص جس کے بارے میں میں نے کبھی بُرا بھلا کہا ہو سے معافی مانگتی ہوں۔
حکومت کا نہیں میرا اپنا قصور ہے!
مثال کے طور پر اگر پارک‘ کالج ‘ بس اسٹاپ‘ مارکیٹ ہر جگہ ’’شہر کو صاف رکھیں‘‘ کا بورڈ یا ڈسٹ بن رکھے ہوئے ہیں تو کینڈی کا ریپر‘ کیلے کا چھلکا‘ جوس کاڈبہ‘ چپس کا پیکٹ وہی پر پھینکنے والی میںہوں‘ اس میں حکومت کا قصور نکالوں کہ حکومت صفائی پر توجہ نہیں دیتی‘ جگہ جگہ کچرا پڑا ہے تو مجھ پر تف‘ اس میں حکومت کا نہیں میرا اپنا قصور ہے۔
اس وقت میں ایک ماں ہونے کے ناطے اولاد کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے اندر کی غلطی کو سنوارتی ہوں۔مثال کے طور پر اولاد کو آرام طلبی کا عادی بنا کر کل کو ان پر طعنہ دوں کہ اولاد کوئی کام نہیں کرتی تو اس میں میرا اپنا قصور ہے اس طرح اگر میں اولاد ہونے کے ناطے والدین کو برا بھلا کہتی ہوں کہ انہوں نے مجھے ڈانٓٹا یا مار پیٹ کی تو اس میں مجھ نکمی کا قصور ہے کہ میں نے والدین کی بات نہیں مانی۔ اس لیے انہوں نے مجھے ڈانٹا اس طرح ایک ٹیچر یا سٹوڈنٹ کو لیں اور سٹوڈنٹ ٹیچر کو لے لیں‘ بہن بھائی کو طعنہ دینے یا برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے آپ کا احتساب کریں تو غلطی اپنے اندر ہی نظر آتی ہے۔اس وقت اگر میں زندگی میں موجود ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کی بات کروں تو صفحات کم پڑجائیں اور مجھے اس میں موجود غلطی ابھر کر میرے سامنے آئے۔ آج میرا مقصد اپنے سے وابستہ لوگوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے آپ کو سنوارنے اور اپنی غلطیوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو درست کرنا ہے۔
حیرت ہے بجلی چور بھی واپڈا کو گالیاں نکالتے ہیں
اسی طرح واپڈا کو جو لوگ بجلی جانے پر کوسنا شروع کردیتے ہیں پہلےاپنے اندر جھانکیں ان کو تو اوپر سے آرڈر ہوتے ہیں وہ لوگ تو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ان کو برا بھلا کہنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ ہم میں ایسے لوگ ہیں جو بجلی چوری کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں اور وہی لوگ بجلی جانے پر حکومت اور واپڈا والوں کو گالیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ محترم حکیم صاحب! آپ کی تحریر ’’حال دل‘‘ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘ نجانے میرے دماغ میں اس وقت کیا کیا چل رہا مگر قارئین سے صرف اتنی گزارش ہے کہ خدارا پہلے خود کو سنواریں‘ دیکھیں پھر آپ کو حکومت اور لوگوں میں کوئی برائی نظر نہیں آئے گی‘ صفائی خود گھر اور اپنے محلے سے کریں دیکھیں پورا شہر اور پھر پورا ملک کیسے گندگی سے پاک صاف ستھرا ہوجائے گا‘ رشوت دینا اور لینا خود سے ختم کریں دیکھیں پورے ملک سے رشوت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ملاوٹ کرنا خود سے ختم کریں دیکھیں پھر پورے ملک سے ملاوٹ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر یہ سب نہیں کرسکتے تو خدارا حکمرانوں‘ واپڈا‘ پولیس‘ ریلوے‘ ایئرلائن اور دیگر اداروں کو گالیاں دینا اور بحث کرنا بھی آپ کو زیب نہیں دیتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اچھا بنادے تاکہ مجھے کسی میں برائی نظر نہ آئے اور میں معاشرے کی ایک مفید شہری ثابت ہوجاؤں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں