اپنی افادیت کی وجہ سے نیم‘ سبز پوش معالج بھی کہلاتا ہے۔ گاؤں‘ دیہات میں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے جب کہ یہ شہروں کو بھی ضرورت ہے۔ یہاں کی فضائی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اور تیزی سے برھتی ہوئی جلدی تکالیف کے لیے بھی۔ نیم کے پتے تمام قسم کے جلدی امراض‘ پھوڑے پھنسیوں‘ آبلوں زخموں پر لگائے جاتے ہیں۔ جنسی امراض سے جسم میں واقع ہونے والے شدید فسادخون‘ زخموں‘ پرانے غدودی دردوں کے لیے یہ مفید ثابت ہوتا ہے۔
دوالی یا ویری کوز وینز کی تکلیف میں جب پیروں میں نیلی رگیں متورم ہوکر درد کا سبب بن جاتی ہیں‘ ان میں زخم بھی ہوجاتے ہیں تو ایسے مریضوں کو پسے ہوئے نیم کے تازہ پتوں کا لیپ بیرونی طور پر لگانا اور اس کے خشک پتوں کا تین گرام سفوف یا 25 گرام پتوں کا جوشاندہ استعمال کرانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
اسی طرح بسا اوقات انجکشن کی وجہ سے بازو وغیرہ میں جو ورم اور پھوڑا ہوجاتا ہے‘ نیم کے گرم پانی سے اس کی سکائی اور ابلے ہوئے پتوں کی پلٹس باندھنے سے یہ تکلیف نشتر کے استعمال کے بغیر ٹھیک ہوجاتی ہے۔ اسی طرح خارش کے لیے بھی یہ بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
ٹوٹی ہڈی کے لیے:نیم کے جوشاندے میں عرق کافور ملا کر کپڑا گیلا کرکے اس کی گدی متاثرہ جگہ پر رکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح درد اور ورم میں کمی ہوجاتی ہے۔
بالوں کی خشکی: بالوں میں خشکی کی وجہ سے ہونے والی بھوسی اور پھنسیوں کے علاوہ جھڑتے بالوں کے لیے چائے کے دو چمچ پسے ہوئے نیم کے پتے اچھی طرح لگا کر پندرہ بیس منٹ بعد سر دھونے سے یہ تکالیف دور ہوجاتی ہیں۔ یہ عمل ہفتے میں دو تین مرتبہ کرنا چاہیے۔
بند چوٹ کاعلاج: گرنے یا کسی چیز کے لگنےسے بند چوٹ ہو‘ نیل اور ورم ہوجائے تو ایسی صورت میں متاثرہ مقام پر باریک پسے ہوئے نیم کے تازہ پتوں کو پکا کر اس کا نیم گرم لیپ لگانے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ نیم کے تازہ پتوں کے درمیان گرم اینٹ وغیرہ رکھ کر کپڑے میں لپیٹ کر سکائی سے بھی یہی کام لیا جاسکتا ہے۔ گرم جوشاندے میں کپڑا بھگو کر پندرہ بیس منٹ سکائی بھی مفید ہوتی ہے۔
ٹانسلز کیلئے: ٹانسلز یعنی گلے کے متورم اور بڑھے ہوئے غدود کیلئے نیم کے پتوں کے جوشاندے میں تھوڑا سا نمک ملا کر غرغرے کرنے سے ورم اور درد دور ہوجاتا ہے۔ یہ عمل ایک دو ماہ کرنے کی صورت میں مستقل فائدہ ہوسکتا ہے۔
ناک کا ورم: یعنی سائی نس کیلئے یہی نیم گرم نمکین پانی وضو کی طرح ناک میں چڑھانے سے رفتہ رفتہ ورم دور ہوجاتا ہے اور ناک کی تکلیف دہ اور غیریقینی آپریشن کی ضرورت بھی ٹل سکتی ہے۔
چرنوں کا علاج: جن بچوں کےپاخانے کی جگہ کے اندر باریک کیڑے ہوجاتے ہیں وہ مقامی خارش کی وجہ سے سخت بے چین رہتے ہیں۔ اس کی ایک خاص علامت بچوں کا بار بار ناک کھجلانا ہے۔ اس کے لیے نیم کے خشک پتوں کا سفوف مقامی طور پر لگانا مفید ثابت ہوتا ہے۔
داخلی استعمال: نیم دوائی خواص کے اعتبار سے کاسرریاح‘ مخرج بلغم‘ مصفی خون اور کیڑے مار ہوتا ہے۔ تین گرام سے چھ گرام اس کے تازہ پتوں کا رس تھوڑا نمک ملا کر پلانے سے آنتوں کے کیڑے نکل جاتے ہیں۔ جلدی امراض میں پچاس گرام رس میں دس دس گرام ہڑر کا سفوف اور اصلی گھی یا روغن بادام ملا کر پلایا جاتا ہے۔
یرقان: یعنی پیلیا کی شکایت کیلئے نیم کے تازہ پتوں کا دس بارہ گرام رس پلانے سے فائدہ ہوتا ہے۔
ٹانک اور مصفی خون: نیم کےپچاس گرام تازہ پتوں کا جوشاندہ ایک بہترین نباتاتی ٹانک اور مصفی خون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے پرانے ملیریائی بخاروں کا علاج بھی ہوسکتا ہے‘ کیونکہ یہ دراصل جگر کی اصلاح کرکے ملیریا کے جراثیم کا خاتمہ کرتا ہے۔
پیشاب آور: نیم کا جوشاندہ پیشاب اور حیض کھل کر لاتا ہے۔گنٹھیا کے لیے: افریقہ میں اسے گنٹھیا کی شکایت کیلئے بہت مفید پایا گیا ہے۔مثانے کے غدود کا ورم: افریقہ میں نیم پر ہونے والی تحقیق کے مطابق اس کے پتوں اور چھال کا ست پروسٹیٹ کے ورم کو دور کرتا ہے۔ وہاں اسے اسپرین کی طرح بخار دور کرنے
کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔نیم کی چھال: چھال سب سے اہم اور مفید ہوتی ہے۔ چھال کا جوشاندہ اور لیپ بھی جلدی امراض‘ جگر کی خرابی‘ گندے زخموں‘ یرقان کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ رات چرائتہ اور تھوڑی سی پسی ہوئی کالی مرچ کے ساتھ چھال کا بھگویا ہوا پانی (جیساندہ) جاڑے بخار کی مقبول دیہاتی دوا ہے۔سیلان الرحم کا علاج: نیم اور ببول کی چھال کا جوشاندہ سیلان الرحم کیلئے ڈوش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پھیوندی اور خمیر (ایسٹ) کی وجہ سے ہونے والی اس شکایت کو خاص طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے اس تکلیف کے ازالے کے علاوہ جسم کے ڈھیلے پن کی شکایت بھی دور ہوتی ہے۔کیچوؤں کیلئے: آنتوں کے کیچوے خارج کرنے کیلئے تازہ چھال کا جوشاندہ یا خشک چھال کا سفوف رات دے کرصبح دست آور دوا دینےسے کیچوے خارج ہوجاتے ہیں۔چھال کا تیل: یہ کرم کش ہوتا ہے‘ سوجھے ہوئے جوڑوں پر ملا جاتا ہے۔ پتوں کےتیل میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے۔ چھال اور پتوں کو باریک پیس کر گولا سا بنا کر دھیمی آنچ پر تیل میں کوئلہ کرکے ٹھنڈا ہونے پر خوب گھوٹ کر چھان کر استعمال کرتے ہیں سر کے زخم‘ پھوڑوں اور استرے کے زخموں کیلئے بھی یہ تیل مفید ہوتاہے۔
نیم کا گوند: ببول اوردوسرے درختوں کی طرح اس کے تنے پر بھی جگہ جگہ سے گوند نکل کر جم جاتا ہے۔ یہ اگرچہ کڑوا ہوتا ہےلیکن محرک اور مقوی ہوتا ہے۔ اسے نزلہ زکام اور عام کمزوری میں مختلف طریقوں سے کھلایا جاتا ہے۔نیم کا شہد: نیم کے جنگل یا درختوں میں لگے چھتوں سے حاصل ہونے والا شہد بھی تلخ ہوتا ہے لیکن یہ بھی مقوی اور مصفی خون ثابت ہوتا ہے۔نیم کی مسواک اور منجن: اس کی نرم شاخیں صدیوں سے بہترین مسواک کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ اس سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں‘ منہ کی گندگی دور ہوتی ہے۔ آیورویدک کے مطابق اس کے مسلسل استعمال سے منہ سے خوشبو آنے لگتی ہے۔ نیم کے خشک پتوں کو پیس کر اس میں نمک‘ کافور اور پھٹکڑی ملا کر بہترین نیم ٹوتھ پاؤڈر بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ نیم کے تازہ یا خشک پھول‘ معدہ کی کمزوری اور عام کمزوری کیلئے رات بھگو کر صبح چھان کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ نبولی یعنی نیم کا پھل بواسیر کیلئے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کا مغز تنہا یا دوسری دواؤں کے ساتھ کھانے سے بواسیر کے علاوہ پیشاب کے امراض یا پیٹ کے کیڑوں اور جذام تک کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
نیم کا بیج: یعنی خشک نبولی سے تیز و تلخ تیل نکلتا ہے۔ یہ بھی بڑا قوی مصفی خون ہوتا ہے۔ کھوپرے کے تیل میں ملا کرسر پر لگانے سے بالوں کی جوئیں مرجاتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں