آخرت سے غافل وہ شخص دنیا کے مال کی شدید محبت میں مبتلا‘ کلف دار کپڑے پہنے‘ ہاتھ میں ہروقت ہتھیار‘ دندناتا پھرتا تھا۔ لوگوں کو مارنے کی دھمکیاں دینا اس کیلئے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اس گاؤں کا ہر دوسرا آدمی اس کا مقروض تھا۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! تقریباً چھ سال قبل جب میرا پروموشن بحیثیت ہیڈمسٹریس ایک گاؤں کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں ہوا جو میرے شہر سے 25 کلومیٹر دور تھا۔ اس گاؤں کا نام میں نے کبھی سنا ہی نہیں تھا لیکن کیا کرتی مجبوری تھی۔ آفس کے اعلیٰ افسران نے منع کیا تھا کہ ماحول سازگار نہیں آپ مت جائیں۔ کبھی کبھی جاکر اسکول کو دیکھ لیا کریں۔ لیکن میرا ضمیر یہ کیسے گوارا کرتا کہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتی ہوں اور اپنے بچوں کو حرام کھلاؤں۔ گرمی‘ سردی‘ بارش اور طوفان میں بھی اسکول جاتی رہی۔ لوکل بسوں کا سفر کبھی نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ تجربہ بھی زندگی کو ایک نیا رنگ دے گیا۔ ہر قسم کے لوگ ملتے تھے۔ مجھے عمر رسیدہ عورتوں کے ساتھ بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ روڈ کے دونوں کناروں پر لہلہاتے کھیت‘ کھیتوں میں کام کرتی عورتیں اور بچے‘ اینٹوں کے بٹھوں سے نکلتا ہوا دھواں‘ ہواؤں میں جذب ہوتا ہوا دور پرے سے پرندوں کی میٹھی بولیاں‘ یہ سب دیکھتے اور سوچتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے کرتے میرا یہ تقریباً گھنٹہ کا سفر صبح کو اور گھنٹہ کا سفر دوپہر کو گزر ہی جاتا۔ یوں کہ تھکن کااحساس بھی نہیں ہوتا‘ چار سال گزر گئے‘ بسوں کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بہت خیال کرتے تھے۔
آپ بچوں کی ٹیچر ہیں! ہماری مدد کریں!
ایک دن بس سے اتری تو بس کے ڈرائیور نے انتہائی ادب سے بات کرنے کی کوشش کی‘ میں رک گئی‘ سوچا شاید بچی کا کوئی مسئلہ ہو‘ اس نے مجھ سے فون نمبر مانگا میں نے سکول کا پی ٹی سی ایل نمبر اس کو دے دیا۔ دوسرے دن اس نے فون کیا اور بہت رویا کہا: ’’مجھے اس شخص سے بچالیں (نام لے کر کہا) آپ ہمارے لیے قابل احترام ہیں‘ ہمارے گاؤں کے بچوں کی ٹیچر ہیں اور ہیڈ بھی‘ میری مدد کریں۔‘‘ مزید پوچھنے پر اس نے بتایا: ’’فلاں شخص سود پر قرضہ دیتا ہے‘ یہ اس کا بہت بڑا بزنس ہے‘ لوگ بحالت مجبوری اس سے قرضہ لیتے ہیں لیکن سود اتنا ہوجاتا ہے کہ اس دلدل سے نکل نہیں پاتے۔ غربت سے تنگ آکر میں نے بھی اس سے سود پر قرض لیا لیکن ادائیگی کر نہیں پارہا۔ اب وہ اصرار کررہا ہے کہ پیسے واپس لوٹاؤں۔ میرے پاس سود کے پیسے ہی نہیں تو اصل قرض کہاں سے دے پاؤں گا۔ ‘‘
سود ہماری نسلوں کو کھاجاتا ہے
اور پھر مجھ سے جتنا ہوسکا ذاتی طور پر اس کی مدد کی۔ اپنی بچی کی پاکٹ منی بھی اس کو دیدی۔ لیکن اس کو سمجھایا اور بتایا کہ سود کیا ہے؟ اس کے نتائج کتنے سنگین ہیں۔ یہ ہماری نسلوں کو کھاجاتا ہے۔ معاشی بدحالی تنگدسی غربت میں تو آجاتے ہیں لیکن سود ایمان کو بھی جڑوں سے ہی کمزور کردیتا ہے۔آخرت سے غافل وہ شخص دنیا کے مال کی شدید محبت میں مبتلا‘ کلف دار کپڑے پہنے‘ ہاتھ میں ہروقت ہتھیار‘ دندناتا پھرتا تھا۔ لوگوں کو مارنے کی دھمکیاں دینا اس کیلئے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اس گاؤں کا ہر دوسرا آدمی اس کا مقروض تھا۔ اس طرح اس نے جائز ناجائز طریقوں سے مال اکٹھا کیا تھا۔
بس اسٹینڈ پر عجب ویرانی و سناٹا
ایک دن میں جیسے ہی بس اسٹینڈ پر اتری۔ عجیب سی ویرانی و سناٹا محسوس ہوا‘ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ ایک رکشہ والا قریب آیا۔ میں اس میں بیٹھ کر اسکول کی طرف جانے لگی‘ رکشہ والے نے بتایا: آپا! اس سود خور کو لوگوں نے قتل کردیا‘‘
میں حیران و پریشان! پرودگار! وہ تو دوسروں کی جان کے درپے تھا۔ خود مرگیا۔ رکشہ والا بولا: ہمارے گاؤں سے ایک فتنہ ختم ہوگیا‘ اللہ کرے اس کی اولاد میں وہ جراثیم نہ ہوں‘ ورنہ سب کچھ پھر وہی ہوگا جو ہورہا تھا۔لوگوں نے بتایا: غسل سے پہلے‘ غسل کے بعد بھی اس کے جسم میں کیڑے بھرگئے تھے۔ اور بغیر غسل دئیے اس کو دفن کردیا گیا۔ سورۂ بقرۂ کی آیت نمبر 275 میں سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’وہ جو سُود کھاتے ہیں ۔قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط(باؤلا) بنادیاہو۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع(بیچنا) بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللّٰہ نے حلال کیا بیع(بیچنا) کو اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے ۔اور جو اب ایسی حرکت کرے گا وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے‘‘(کوثر‘ خیرپور میرس)
دیورانی اور جیٹھانی کا جھگڑا اور بھیانک انجام
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! آج جو واقعہ لکھنے کیلئے قلم اٹھایا وہ اس طرح ہے کہ میری دوسرے اور تیسرے نمبر والی چچی آپس میں بہت لڑتی رہتی تھیں۔ تیسرے نمبر والی چچی کے ہاں اولاد نہیں وہ بے اولاد ہیں‘ دوسرے نمبر والی چچی جب بھی تیسرے نمبر والی چچی سے لڑتیں تو اسے کہتی کہ تو ہے ہی ’’ہیجڑہ‘‘ تیرے اولاد کہاں سے ہوگی‘ اس بات سے اس کے دل پر نجانے کی اگزرتی ہوگی یہ تو وہ ہی جانتی ہیں لیکن وہ اس کے جواب میں ایک ہی بات کہتی تھیں کہ تیری اولاد کے آگے آئے تو اپنی بیٹیوں سے نصیحت پائے‘ اس کا ہمیشہ یہ ہی جواب ہوتا تھا اس کے بعد وہ چپ جاتی تھی‘ بڑی چچی اس بات کو بار بار دہراتی جاتی۔ آج اس کی بددعا کا یہ اثر ہے کہ بڑی چچی کی دو بیٹیاں انتہائی دکھی ‘ بیمار اور پریشان ایک تو بالکل گھر آکر بیٹھ گئی ہے کیونکہ خاوند بیرون ملک گیا تو واپس نہیں آیا‘ کوئی رابطہ نہیں‘ سسرال والوں نے گھر سےنکال دیا‘ چار بیٹوں کی شادی کی‘ تین بیٹوں کی اولاد نہیں‘ اب ہروقت اٹھتے بیٹھتے بچے بچے کرتی ہیں‘ روتی ہیں کہ میرے ساتھ ایسا مسئلہ ہے کہ جسے نہ تو کوئی انسان حل کرسکتا ہے اور نہ ہی دولت سے حل ہوسکتا ہے‘ جب اس کی بے بسی اور رونا دیکھتی ہوں تو یاد آتا ہے کہ یہ ایسے اسے ستاتی تھیں تو وہ اسےایک ہی بددعا دیتی تھیں‘ اللہ بہتر جاننے والا ہے لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ یہ اس بددعا کےنتیجے میں ان کے ساتھ ہورہا ہے‘ انہیں اس بے اولاد کی بددعا لگ گئی ہے۔
ماں نے بددعا دی بیٹے کی لاش گھر آئی
دوسرا واقعہ بھی ایسا ہی ے کہ میرے سامنے والےگھر میں کچھ لوگ رہتے ہیں جو ان پڑھ اور جاہل سے تھے‘ اب تو کچھ بہتر ہوگئے ہیں‘ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کی تو کچھ وجوہات کی بنا پر ماں بیٹے کی آپس میں لڑائ رہتی‘ وہ صبح جب کام پر جانے کیلئے سائیکل نکالتا تو ماں لڑنا شروع ہوجاتی کہ تیرا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو واپس نہ آئے‘ اس طرح کی بددعائیں دیتی‘ وقت گزرتا رہا کچھ عرصہ
بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی سالی سے ملنے گیا تو راستے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا بیوی کومعمولی چوٹیں آئیں ایک سال کا بیٹا بالکل محفوظ رہا لیکن اس لڑکے کوکافی گہری چوٹیں آئیں اور ایک مہینہ زیرعلاج رہنے کے بعد وہ فوت ہوگیا۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ مائیں تو دل سے بددعائیں دیتیں لیکن اس کی ماں کی بددعا تو اسے لگ گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں