حلف اٹھانے سے پہلےبہنوئی نے (ش) کو کہا تھا کہ دیکھ میں تجھے سچے دل سے معاف کردوں مگر تو جھوٹی قسم نہ اٹھا ۔جب میری بہن نے جھوٹی قسم اٹھائی تو میرے بہنوئی کی آنکھ میں آنسو تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد میری بہن فوت ہوگئی‘ بہنوئی بھی فوت ہوچکے ہیں
قارئین! ایک لرزہ خیز داستان میری آپ بیتی ہے‘ یہ میرے سینے کا راز تھا‘ مگر اس کہانی کا انجام دیکھ کر میں نے سوچا اس داستان کو دنیا کی ہر عورت تک پہنچاؤں ‘ شاید کسی کی اصلاح ہوجائے اور وہ انجام بد سے بچ جائے۔ یہ تحریر میں انتہائی احتیاط سے لکھ رہی ہوں‘ بہت سے پہلو چھپا بھی رہی ہوں مگر میرا جو مقصد ہے ان شاء اللہ آپ کوسمجھ آجائے گا۔
یہ 1990 ءکی بات ہے جب میں میٹرک میں پڑھتی تھی‘ اس وقت ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے‘ میری بڑی بہن (ش) کی شادی کو ایک سال ہوچکا تھا‘ میرے بہنوئی ایک معمولی سےسرکاری ملازم تھے‘چھٹی کے بعد وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں چند گھنٹے کیلئےنوکری کرتے اور رات گئے گھر لوٹتے۔ میٹر ک کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لیا تو (ش) نے مجھے اپنے گھر رکھ لیا کیونکہ کالج اس کے گھر کے قریب تھا دوسرے بہنوئی کے دفتر جانے کے بعد سارا دن اکیلی ہوتی تھی‘ میری بہن کا ایک سال کا بیٹا تھا جسے میں بہت زیادہ پیار کرتی تھی۔ ایک دن بہنوئی کے جانے کے بعد گھر میں ہمارا ایک رشتہ دار آگیا‘ (ش) نے اسے اپنے کمرے میں بٹھایا اور مجھے کہا کہ منے کو لیکر اپنے کمرے میں چلی جاؤ‘ میں نے(م) سے کچھ باتیں کرنی ہیں‘ میرا خیال تھا کہ یہ انتہائی غریب رشتہ دار ہے‘ پیسے وغیرہ مانگنے آیا ہوگا‘ میں نے منے کو پکڑا اور ہنستی کھیلتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد وہ چلا گیا‘ (ش) میرے پاس آئی اور کہا کہ تم اپنے بہنوئی کو نہ بتانا کہ (م) آیا تھا‘ تمہارے بہنوئی کو تو ہمارے غریب رشتہ داروں سے ویسے ہی دشمنی ہے ‘ میں چپ کرگئی‘ باجی نے نہا کر ظہر کی نماز پڑھی اور کھانا پکانے لگ گئی‘ (ش)شروع سے ہی نماز‘ روزے کی پابنداور تہجد گزار تھی‘ چند دنوں بعد (م) پھر آگیا‘ مجھے پھر حکم ملا کہ اپنے کمرے میں چلی جاؤ‘ منا سورہا تھا‘ لیکن نجانے کیوں میرے دل میں تجسس بڑھ رہا تھا‘ پھر مجھ سے رہا نہ گیا‘ میں باہر آئی‘ (ش) کے کمرے کا دروازہ بند تھا‘ میرا شک یقین میں بدل گیا‘ میں نے سوراخ میں سے دیکھا تو میرا دل و دماغ سن ہوگیا‘ میں اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی‘ کافی دیر روتی رہی کہ یہ میری بہن کو کیا ہوگیا۔میں لاکھ کوشش کرتی مگر اپنے بہنوئی کو کچھ نہ بتا سکی کہ آخر گھر تو میری بہن کا ہی اجڑے گا۔ پھر ایسا کئی بار ہوا‘(م) گھر میں آتا اور مجھے اپنے کمرے جانے کا حکم ملتا۔آخر میں بھی عورت تھی‘مجھ سےبرداشت نہ ہوتا۔ ایک دن بہنوئی گھر میں تھے‘ چھٹی کا دن تھی‘ (ش) باہر گئی ہوئی تھی‘ میں بہنوئی کے کمرے میں گئی اور بہنوئی کو غلط راہوں کیلئے اکسایا‘ میری بات سن کر وہ کہنے لگے: دیکھو تم میری بہن کی طرح ہو‘ میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں جذبات میں تھی‘ میں نے کہا کہ تم جسے پاکباز بیوی سمجھتے ہواور پھر میں نے جو کچھ دیکھا اور بار بار دیکھا سب اپنے بہنوئی کو بتا دیا‘ آخر میں پھر اس عظیم شخص کو گناہ کیلئے اکسایا مگر وہ مطمئن رہا اور مجھے ہی سمجھاتا تھا اتنے میں میری بہن کمرے میں آگئی اس کے آتے ہی میں کمرے سے باہر چلی گئی‘ اس کو شک ہوا اور وہ میرے پیچھے میرے کمرے میں آئی اور آکر مجھ سے پوچھا‘ میں نے انکار کردیا‘مگر اس دن کے بعد میری بہن نے میرے بہنوئی اور مجھ سے روزانہ جھگڑا کرنا شروع کردیا اور ہم پر طرح طرح کے الزامات لگاتی‘ مگر میرے بہنوئی نے کبھی اس سے بدتمیزی نہ کی‘ لڑائی ہوتے ہوتے عروج پر پہنچ گئی‘ (ش) نے مجھ سے کہا تم اپنے بہنوئی سے قرآن پر حلف لے دو تم دونوں پاک ہو تو میں جھگڑا بند کردوں گی‘آخر میں ہمارے امی ‘ ابو اور بھائی بھی آگئے‘ میرے ابو نے میرے بہنوئی سے کہا: بیٹا اگر تم بے قصور ہو تو حلف دے دو‘مگر یہ سوچ لو یہ آسان کام نہیں‘ یہ بہت بھاری پڑتاہے‘جتنی بات ہے اتنا حلف دینا‘ میں تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں تم میری چھوٹی بیٹی سے ایک بار پھر مشورہ کرلو‘ تم دونوں لان میں چلے جاؤ او ر بات کرلو‘ اگر تم اقرارگناہ کرلو گے تو میں گارنٹی دیتا ہوں تم دونوں کو معاف کردیا جائے گا اور گھر کی بات گھر میں ہی ختم ہوجائے گی‘ بہنوئی اور میں لان میں آگئے‘ بہنوئی نے مجھ سے کہا: میں بے قصور ہوں اب تم بتاؤ کیا کرنا ہے‘ میں نے بہنوئی سے کہا: میری تو زندگی برباد ہوجائے گی‘ گھر والے مجھے طعنے مار مار کر ماردیں گے‘میں نےکہا ہم نے گناہ نہیں کیا‘آپ سچے ہیں‘آپ حلف دیدیں کہ میں نے گناہ نہیں کیا‘اگر میں نے اس خاتون کیساتھ کچھ غلط کیا تو میں برباد ہوجاؤں۔ اس طرح حلف دینے سے میری زندگی بھی برباد ہونے سے بچ جائے گی اور تم حلف بھی سچا دوگے۔ میں نے اسے کہا کہ تم اس محفل میں (م) کا نام لے دو ‘ میں اس بات کی چشم دید گواہ ہوں‘میرے بہنوئی نے کہا تم اس عورت کا پردہ رکھو‘ اللہ تمہارا اور میرا پردہ رکھے گا۔ آخر بہنوئی نے حلف دے دیا‘ امی ابو مجھے گھر لے آئے‘مگر میں شیطان کے بہکاوے میں آکر غلط راہوں میں چلنے لگی اور پھر میری شادی ہوگئی۔ اس عرصہ میں میری بہن(ش) کا بیٹا مرگیا اور اس کی تین بیٹیاںبھی ہوچکی تھیں مگر و ہ پھر بھی اپنے نیک اور مخلص شوہر کو میرا نام لے کر گاہے بگاہے ذلیل کرتی رہتی۔ آخر ایک دن میرے بہنوئی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس کے زبان پر (م) والی بات آگئی‘ پھر ایک نیا طوفان کھڑا ہوگیا‘ کئی ماہ لڑائی چلی‘ پھر ایک دن طے ہوا کہ (ش) قرآن پر حلف دیگی‘ مگر میں تو جانتی تھی کہ وہ جھوٹی ہے‘ مجھے اور میرے گھر والوں کو بلایا گیا‘ میں نے علیحدگی میں (ش) کو سمجھایا: اس نے مجھے کہا تم چپ کرو‘ میں نے اتنی عبادات کی ہیں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی‘ میرا اللہ مجھے معاف کردے گا۔ آخر (ش) نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم اٹھائی اور کہا کہ اگر کسی غیرمحرم نے مجھے کبھی ہاتھ بھی لگایا ہو تو مجھے مرنے کے بعد بھی سکون نصیب نہ ہو‘ میرے بہنوئی نے لڑائی بند کردی۔حلف اٹھانے سے پہلےبہنوئی نے (ش) کو کہا تھا کہ دیکھ میں تجھے سچے دل سے معاف کردوں گا مگر تو جھوٹی قسم نہ اٹھا ۔جب میری بہن نے جھوٹی قسم اٹھائی تو میرے بہنوئی کی آنکھ میں آنسو تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد میری بہن فوت ہوگئی‘ بہنوئی بھی فوت ہوچکے ہیں۔ (ش) مرنے کے تین ماہ بعد مجھے خواب میں چیختی چلاتی ہوئی دکھائی دی‘ اور کہنے لگی:’’ بہن! میں نے اپنے خاوند سے دھوکہ کیا‘ اگر میں اس عظیم شخص سے معافی مانگ لیتی تو مجھے سزا نہ ملتی‘ اب مجھے سزا مل رہی ہے‘ مجھے کہہ دیا گیا ہے کہ تم نے قرآن پا ک پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم اٹھائی‘ اس لیے تم مرتد ہو‘ تمہاری عبادات‘ ریاضت‘ صدقات ‘ خیرات کچھ بھی قبول نہیں۔‘‘
اب ہر جمعرات (ش) مجھے عذاب میں مبتلا نظر آتی ہے‘ اس کو عذاب ہوتے دیکھ کر مجھے اپنا خیال آیا کہ میں نے بھی شادی سے پہلے غلط راہوں کو اختیار کیا‘اپنے شوہر کو دھوکہ دیا‘ جھوٹی قسم نہیں اٹھائی مگر عذاب تو ملے گا۔ کئی ماہ کشمکش میں گزرے کہ اپنے میاں کو کیسے بتاؤں‘ کیسے معافی مانگوں‘ کتنی شرمندگی ہوگی‘ میں قرآن پاک پڑھتی‘ روتی‘ اللہ سے معافی مانگتی‘ ایک دن قرآن پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ جب (ش) کو معافی نہ ملی تو میرا کیا حال ہوگا؟ میں نےفیصلہ کیا کہ آج ہر حال میں اپنے شوہر کو سب کچھ بتادوں گی‘ شام کو میں نے اپنے بچوں کو بٹھایا اور اپنے میاں کو اپنی زندگی کے تمام گناہ بتادئیے اور کہا میں مجرم ہوں‘ جو سزا دیں گے مجھے قبول ہے۔ میرے شوہر میری بات سن کر کافی دیر سوچ میں ڈوبے رہے‘ اٹھ کر باہر چلے گئے‘ کسی مفتی سے مشورہ کیا‘ تو انہوں نے کہا: اب طلاق دینے کا کوئی فائدہ نہیں‘ بہتر ہے آپ اسے معاف کردیں‘ میرے میاں نے
گھر آکر سارے بچوں کے سامنے مجھے معاف کردیا اور ہنستے ہوئے کہا کہ آج کے بات اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہ ہوگی۔ نہ آپ نے کچھ کہا نہ ہم نے کچھ سنا۔ اس دن کے بعدمیری روح کو سکون آگیا۔ مجھے آج بھی (ش) ہر جمعرات کو چیختی چلاتی ہوئی ملتی ہے‘ اس کی قبر آگ سے بھری ہوئی ہے۔ میں اس کیلئے پڑھ پڑھ کر ہدیہ کرتی ہوں مگر وہ مجھے خواب میں کہتی ہے کہ جو تحفے تم مجھے بھیجتی ہوں وہ کچھ فاصلے پر اس طرح رکھ دئیے جاتے ہیں جیسے بھوکے انسان سے کھانا دور کردیا جائے اور وہ دیکھ دیکھ کر تڑپتا رہے۔ قارئین! میری ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ خدارا جھوٹی قسم نہ اٹھائیے اور اپنے شریک حیات کو کبھی بھی دھوکہ مت دیجئے۔ عبقری پڑھتے پڑھتے میری آخرت سنوارنے کی خواہش پوری ہوگئی‘ میرے شوہر نے مجھے معاف کردیا‘ اب اللہ تعالیٰ سے ہروقت استغفار کرتی رہتی ہوں یااللہ مجھے معاف کردے۔ (پوشیدہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں