ہم کتنے سیاہ کار ہیں ‘ خطا کار ہیں گناہوں میں پورا دن اور رات گزار کر بھی جب ہم اپنے اس پاک رب کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تو اس لالچ میں کہ وہ ہمیں بس عطا کر دے ‘ نواز دے ‘ ہماری دُعا ‘ ہماری نماز ‘ ہمارے نیک اعمال (جو کہ بہت کم ہیں) قبول کر لے اور ہمیں صلہ دے دے
’’بیٹا ناراض مت ہونا ‘ کبھی میں نے آپ سے اس طرح کچھ مانگا نہیں مگر آج مجبوری میں دست سوال دراز کر رہی ہوں ‘ اگر ایک پیالی چینی کی دے دو بیٹا دُعا دوں گی صبح چائے پھیکی بنا کے پی ہے بیٹا‘‘ یہ اس عورت کے منہ سے نکلے شرمندہ سے الفاظ تھے ‘ جو ہمارے گھر آٹا لینے (بھیک مانگنے) کبھی کبھی آ جاتی ہے اور اس کے یہ الفاظ مجھے شرمندہ کر گئے ۔ بہت سی سوچوں اور غور و فکر میں ڈال گئے ۔ بے ساختہ اُسے چینی دیتے ہوئے میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ہم کتنے سیاہ کار ہیں ‘ خطا کار ہیں گناہوں میں پورا دن اور رات گزار کر بھی جب ہم اپنے اس پاک رب کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تو اس لالچ میں کہ وہ ہمیں بس عطا کر دے ‘ نواز دے ‘ ہماری دُعا ‘ ہماری نماز ‘ ہمارے نیک اعمال (جو کہ بہت کم ہیں) قبول کر لے اور ہمیں صلہ دے دے ‘ مگر یہ سب سوچنے اور چاہتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے اُسی خالق و مالک کے کتنے نا فرمان بندے ہیں اس کے احکام اور اپنی وجہ تخلیق کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری سیاہ کاریوں کے با وجود بھی اس کی عطائیں کتنی ہیں اور ہماری خطائیں کتنی ؟ کیا ہم نے کبھی دُعا مانگنے کا یہ طریقہ اپنایا ہے جو آج اس سائلہ نے مجھے سکھایا ؟ کہ اس طرح شرمندہ ہو کر اپنے رب سے کچھ مانگا جائے تو وہ کیونکر خالی لوٹائے گا جبکہ ہم حقیر بندے بھی اگر اس طرح کسی کے آگے شرمندہ ہوں تو وہ بخیل ہوتے ہوئے بھی سخی ہو جائے تو میرے رب کی سخاوت کی تو مثال کہیں نہیں ملتی نہ ملے گی ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کے بندے تو ہیں مگر شکر گزار نہیں۔ قناعت و شکر گزاری ایک ایسی چیز ہے جو کسی بندے میں ہو تو کچھ نہ ہوتے ہوئے یا تھوڑا ہوتے ہوئے بھی بہت امیر ہوتا ہے ۔ وہ اپنے رب کا پیارا بندہ ہوتا ہے ۔ وہ اپنے رب سے مانگتا تو ہے مگر نہ ملنے پر اپنے رب کی مصلحت اس کی قدرت ‘ اس کا فیصلہ ‘ اس کی حمیت ‘ اور اس کی رضا سمجھ جاتا ہے اور دُعا پوری نہ ہونے پر بھی صابر و شاکر رہتے ہوئے ان بندوں میں شامل ہو جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن فرماتا ہے ۔
1 ۔ ’’ بے شک اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران 146) ۔
2 ۔ ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ‘‘ (آل عمران 159) ۔
وہ پاک رب جو ہم سے ماں سے بھی ستر گُنا زیادہ محبت کرتا ہے اور ہمارے اتنے قریب جتنے کہ ہم خود بھی اپنے قریب نہیں اور ہم اپنی سیاہ کاریوں کے با وجود بھی اس کے آگے دست سوال دراز کرتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے مگر وہ اتنا عظیم اتنا سخی ہے کہ کبھی ہم سے یہ نہیں پوچھتا کہ اے میرے بندے ! تو نے اتنے گناہ کئے ہیں ‘ میری نا فرمانیاں کی ہیں اور اب مجھ سے مانگنے آ کھڑا ہوا ہے تو کس منہ سے ؟ وہ کبھی ہم سے تنگ نہیں ہو گا کبھی خالی نہیں لوٹاتا ‘ ہاں ! مگر ہماری وہ دُعائیں جو ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتیں اور جس کے پورے ہونے پر ملنے والے دُکھ یا کم نعمتوں سے زیادہ اس نے ہمارے لئے انعام رکھا ہوتا ‘ بے شک اُن دُعائوں کا صلہ تو اس پیارے رب کے پاس ہے ۔ وہ صلہ جب ہمیں آخرت میں دیا جائے گا تو بے ساختہ ہمارے دل میں خیال آئے گا کہ کاش جس طرح یہ دُعا قبول نہ ہوئی تو ہمیں اس کا اتنا انعام ملا ‘ ہماری باقی دُعائیں بھی قبول نہ ہوئی ہوتیں ۔
سبحان اللہ ! یہ ہے میرے اس پیارے خالق و مالک اللہ عزوجل کی شان ذوالجلال ! کہ وہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ۔ اس کے پیارے محبوب محمد مصطفیٰﷺ بھی ہمیشہ اپنے منگتوں کی جھولیاں بھر کر لوٹایا کرتے ہیں اور اُن کی پیروی کرنے والے ان کے امتیوں کا بھی فرض ہے اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں دیر مت کریں ۔ اللہ پاک ہم کو توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں