وہ لڑکے طوفان بدتمیزی مچاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور ہم برباد ہوگئے‘ ہماری دنیا‘ ہماری جنت‘ ہماری ماں چلی گئی‘ ہم اکیلے رہ گئے! میں ان لڑکوں سے صرف یہ پوچھتی ہوں کہ یہ آزادی منانے کا کون سا طریقہ ہے‘ کیا مہذب قومیں ایسے دن ایسے مناتی ہیں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میری تحریر ضرور چھاپیے گا شاید میری تحریر سے کوئی ماں اپنی اولاد سے نہ بچھڑے‘ شاید ان لڑکوں کو اللہ ہدایت دے دے جنہوں نے ’’آزادی‘‘ کے نام پر میری ماں کو ہم سے چھین لیا‘ اس دنیا میں پہنچا دیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ قارئین! یہ 14 اگست 2016ء بروز اتوار کی بات ہے‘ جب میرے امی ابو بھی ہر محب وطن پاکستانی کی طرح آزادی کا دن منانے بوقت فجر اٹھے‘ نماز فجر ادا کی‘ ملک کی ترقی اور سلامتی کیلئے خوب دعائیں مانگیں۔ اس کے بعد والدہ کی عادت تھی کہ وہ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت اور عبقری کے وظائف پڑھا کرتی تھیں‘ پڑھ کرفارغ ہوئیں تو میرے امی اور ابو دونوں ناشتہ کرنے باہر گئے‘ میرے والدین بہت خوش تھے کہ آج 14 اگست ہے‘ آج کے دن ہمارا پیارا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا‘ ہمارے بڑوں نے بڑی قربانیوں کے بعد اس ملک خداداد کو پایا ہے‘ وہ ہر سال اس دن کو بڑی عقیدت سے مناتے اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے خوب دعائیں کرتے۔ 14 اگست کے دن ہی میری امی اور ابو نے ہم تمام بہنوں کو کھانے پر دعوت دی ہوئی تھی۔ صبح 9 بجے میری امی کا فون آیا کہ بیٹی! ناشتہ ہمارے گھر آکر کرلو‘ میں نے کہا نہیں ہم ابھی سورہے ہیں‘ آپ نے پہلے دوپہر کی دعوت دی تھی ہم دوپہر کو ہی آئیں گے۔ امی نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے‘ پھر میں بازار جاکر کچھ سودا لے کرآتی ہوں‘ آکر تمام بیٹیوں کیلئے قورمہ اور بریانی بنانی ہے‘ میں نے کہا ٹھیک ہے اس کے بعد میرے والدین دوبارہ ساڑھے نو بجے سودا سلف لینے چلے گئے۔ اس کے بعد دس بجے مجھے میری چھوٹی بہن کا فون آیا کہ ’’آپی! امی ابو کا ایکسیڈنٹ’’موچی پورہ‘‘ میں ہوگیا ہے‘‘ ہم لوگ فوری طور پر وہاں پہنچے‘ امی کو 1122 کی ایمبولینس میں ڈال کر فوری طور پر لاہور کے جناح ہسپتال میں لے جایا گیا‘ وہاں جاکر پتہ چلا کہ ابو امی سامان خرید کر واپس آرہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سوار جو ’’ون ویلنگ‘‘ اور ’’ہلہ گلہ‘‘ کرتے آرہے تھے‘ امی کو موٹرسائیکل کا ہینڈل مارا ابو کی بائیک کو ہٹ کیا میرے ابو آگے اور امی پیچھے کی طرف گریں‘ اور ان کا سر اس زور سے فٹ پاتھ پر ٹکرایا کہ جس کی وجہ سے دماغ پھٹ گیا‘ گردن کی ہڈی اور پسلی ٹوٹ گئی اور میری امی کے منہ سے اسی وقت جھاگ نکلا‘ تین سانسیں لیں اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہمیں چھوڑ گئیں جبکہ وہ لڑکے اٹھے‘طوفان بدتمیزی مچاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور ہم برباد ہوگئے‘ ہماری دنیا‘ ہماری جنت‘ ہماری ماں چلی گئی‘ ہم اکیلے رہ گئے! میں ان لڑکوں سے صرف یہ پوچھتی ہوں کہ یہ آزادی منانے کا کون سا طریقہ ہے‘ کیا مہذب قومیں اپنا دن ایسے مناتی ہیں‘ یہ لوگ کیسے کسی کی زندگی چھین سکتے ہیں؟ انہیں یوم حشر والے دن میری ماں کے خون کا حساب دینا ہوگا۔ میرےابو میری امی کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں‘ اللہ جانتا ہے ان کی حالت اس وقت کیا ہے۔ مگر ہمارے سے ہماری ماں کیوں چھینی؟ انہوں نے کسی کا کیابگاڑا تھا۔ وہ تو محب وطن فرشتہ صفت خاتون تھیں‘ وہ ہرسال 14 اگست پر بہت خوش ہوتیں ان کی تو عید ہوتی۔ باپردہ‘ذاکر‘ ہروقت ذکر و اذکار کرنے والی‘ میرے آقا حضرت محمد ﷺ کی نعتیں پڑھنے والی میری ماں کہاں چلی گئیں۔ میں پردوں میں چھپ چھپ کر بلک بلک کر روتی ہوں‘ آخر میری ماںکو مجھ سے کیوں چھین لیا گیا‘ وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے‘ کدھر گئے؟ شاید ان کو پتہ بھی نہ ہوگا کہ ہم پر کیا قیامت گزررہی ہے۔ میرے باپ کے منہ کو چپ لگ گئی ہے‘ نہ وہ ہنستے ہیں‘ نہ بولتے ہیں‘ نہ ٹھیک سے کھاتے پیتے ہیں۔ اس سے زیادہ لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ اللہ ان کےدرجات بلند فرمائے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں