ہرانسان کی گردن کے نیچے حصے میں سامنے کی طرف انگریزی حرف Hکی شکل کا ایک چھوٹا سا غدہ پایا جاتا ہے جسے غدہ ورقیہ کہتے ہیں۔ قدرت نے گوشت کے اس ننھے منے سے لوتھڑے میں انسانی جسم کی نشوونما کو کنٹرول کرنے کی قوت و ریعت کررکھی ہے۔
میرا ایک کزن تیرہ برس کی عمر تک ایک عام سا دبلا پتلا لڑکا تھا‘ لیکن جونہی اس نے چودھویں برس میں قدم رکھا‘ ایک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی‘ اس کا قد بڑی تیزی سے بڑھنے لگا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ساڑھے چھ فٹ سے بھی تجاوز کرگیا۔ اس کے دوست اور استاد اس کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ اپنے غیر معمولی قد و قامت کی وجہ سے وہ عرصے تک لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کامرکز بنا رہا‘ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کے والد اور والدہ دونوں معمولی قدو قامت کے تھے پھر غلام محی الدین کا قد اس قدر تیزی سے بڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔اس کے برعکس کئی ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جن کا قدو قامت آٹھ نو سال کے بچے سے بھی کم ہوتا ہے۔ ان بونے لوگوں کو عام زندگی میں بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو زندگی ان کیلیئے وبال جان بن جاتی ہے۔ لمبے قد والے بھی کچھ ایسے خوش نظر نہیں آتے۔ انہیں بھی روزمرہ زندگی میں بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ تو نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور لوگ ابتدائی طبی معلومات تک نہیں جانتےکسی بچے کی نشوونما رک جائے تو تعویذ گنڈوں اور ٹونے ٹوٹکوں سے علاج کرتے ہیں اور جاہل‘ نام نہاد‘ اشتہاری عاملین کی بن آتی ہے۔ ظاہر ہے فائدہ کیا ہوگا؟ بچہ پست قامت ہی رہ جاتا ہے اور پھر وہ اسے مشیت الٰہی سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں اب یہ مرض کچھ ایسا معمہ نہیں رہا۔ لمبے اور پست قد کا کھوج قبل از وقت لگایا جاسکتا ہے اور علاج معالجہ بھی ناممکن نہیں۔ہرانسان کی گردن کے نیچے حصے میں سامنے کی طرف انگریزی حرف Hکی شکل کا ایک چھوٹا سا غدہ پایا جاتا ہے جسے غدہ ورقیہ کہتے ہیں۔ قدرت نے گوشت کے اس ننھے منے سے لوتھڑے میں انسانی جسم کی نشوونما کو کنٹرول کرنے کی قوت رکھی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کے ہارمون پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم میں رواں خون میں شامل ہوکر بیشتر اعضا کے افعال میں باقاعدگی اور روانی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تندرست غدہ ورقیہ صرف اتنی مقدار میں ہارمون خارج کرتا ہے جس سے جسم معمول کے مطابق اپنے افعال سرانجام دیتا رہے۔ اس صورت میں دل دھڑکنے کی رفتار مناسب‘ نبض نارمل‘ آنتوں کا فعل درست اور جسمانی توانائی یا حرارت غریزی مناسب سطح پر رہتی ہے۔ بعض اوقات نامعلوم اسباب کی بنا پر غدہ ورقیہ کا فعل بہت نہیں رہتا جس سے ہارمون یا تو زیادہ مقدار میں پیدا ہونے لگتے ہیں یا بالکل کم ہوجاتے ہیں۔ اس کمی بیشی سے جسمانی اعضا کے افعال میں بھی باقاعدگی نہیں رہتی جس کا اثر انسانی جسم کی نشوونما پر پڑتا ہے۔ اگر غدہ ورقیہ زیادہ مقدار میں ہارمون پیدا کرنے لگے تو ان سے جسمانی نشوونما کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور انسان معمول سے زیاہ لمبا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس ہارمون کم پیدا ہوں تو اعضا کا عمل سست پڑجاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جسمانی نشوونما کی رفتار مدھم یا بالکل رک جاتی ہے اور انسان پست قد رہ جاتا ہے۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ ہمیں بروقت کیسے پتہ چلے کہ ہمارا غدہ ورقیہ ٹھیک کام کررہا ہے یا نہیں طبی ماہرین نے اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیا ہے اب اصل خرابی کا بروقت پتہ بھی چل سکتا ہے اور اس کا تدارک بھی ممکن ہے۔ غدہ ورقیہ کا فعل تیز ہوجائے یعنی ورقی ہارمون کی پیداوار بڑھ جائے تو کئی جسمانی علامتیں اس خطرے کی نشاندہی کردیتی ہیں مثلاً اعصابی کھچاؤ‘ ہاتھوں میں رعشہ‘ دل کی دھڑکن میں تیزی اور بے قاعدگی‘ جلدی پسینہ آنا‘ اسہال‘ وزن میں کمی‘ بے خوابی‘ بے چینی اور آنکھوں کا ابھر آنا وغیرہ تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے کسی ماہر معالج سے رجوع کیا جائے کیونکہ بعض اوقات کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی اس قسم کی علامتیں نمودار ہوسکتی ہیں اکثر طبی معائنے سے بھی مرض کی تشخیص ہوجاتی ہے۔ تیز رو غدہ ورقیہ بالعموم پھول جاتا ہے جسے گلہڑ کہتے ہیں اور صاف نظر آتا ہے تاہم صحیح اور مکمل تشخیص کیلئے خون کا معائنہ ضروری ہے۔ مرض کی تشخیص ہوجائے تو علاج کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے تین طریقے عام طور پر رائج ہیں۔1۔غدہ روک دوائیں۔2۔تابکار آئیوڈین۔3۔ سرجری۔ ان میں سے کون سا طریقہ علاج بہتر رہے گا‘ اس کا انحصارمرض کی شدت مریض کی عمر اور اس کی ذاتی خواہش پر ہے کہ وہ کونسا طریقہ پسند کرتا ہے۔ اس سلسلے میں معالج کا تجربہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے تجربے کی رو سے بتاسکتا ہے کہ کس طریق علاج سے جلد علاج ممکن ہے۔ ورقیہ کش ادویات میں دو بڑی خرابیاں ہیں ایک تو یہ کہ دو برس تک مسلسل استعمال کرنا ضروری ہیں‘ دوسرے کہ دوران علاج ہرمریض کو کم از کم ایک دفعہ خون ٹیسٹ کرانا لازمی ہے کیونکہ یہ دوائیں ہڈیوں کے گودے پر بُری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔
تابکار آئیوڈین کےذریعے علاج میں یہ فائدہ ہے کہ صرف ایک بار دو خوراکیں کافی رہتی ہیں۔ مریض کوایک محلول دیا جاتا ہے جس میں تابکارآئیوڈین بھی ہوتی ہے۔ تابکار آئیوڈین ورقیہ میں جذب ہوکر اس کا کچھ حصہ مفلوج کردیتی ہے اور ورقی ہارمون کی پیداوار خودبخود گرجاتی ہے۔ تاہم یہ طریقہ علاج بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں رہتی۔ ڈاکٹر اس علاج کو بیس سال سے کم عمر کے مریضوں پر نہیں آزماتے۔سرجری کے عمل میں غدہ ورقیہ کا کچھ حصہ کاٹنا پڑتا ہے۔ اس طرح غدہ ورقیہ کا حجم کم ہوجانے سےورقی ہارمون کی پیداوار بھی گھٹ جاتی ہے۔ یہ علاج اس لحاظ سے سب سے بہتر ہے کہ ایک ہی دفعہ کرنا پڑتا ہے اور غدہ ورقیہ کا فعل درست ہونے کے امکانات بھی دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ اب ان مریضوں کی طرف آئیے جن کا غدہ ورقیہ کسی وجہ سے سست ہوجاتا ہے اور ورقی ہارمون کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ اس مرض کی مندرجہ ذیل علامتیں ہیں۔ دل کی دھڑکن سست‘ خشک جلد‘ بالوں کا گرنا‘ عورتوں میں ایام ماہواری کے وقفے میں کمی‘ حرارت غریزی میں کمی‘ نیند کی کثرت‘ وزن میں اضافہ‘ قبض‘ ہاتھوں کا فربہ ہوجانا اور یادداشت کمزور پڑجانا وغیرہ۔ اس مرض میں بھی غدہ ورقیہ عموماً پھول جاتا ہے‘ صحیح تشخیص خون ٹیسٹ کرنے ہی سے کی جاسکتی ہے اگرگلہڑ اتنا بڑا ہو کہ آدمی بدصورت دکھائی دےیا سانس میں رکاوٹ ہونے لگے تو اس کا علاج بہت سادہ ہے اور یہ ہے کہ کسی بھی شکل میں ورقی ہارمون استعمال کیے جائیں جن لوگوں کے غدہ ورقیہ میں خرابی آئیوڈین کےکم ہونے سے پیدا ہوتی ہے ان کا علاج آئیوڈین کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات غدہ ورقیہ کی زیادتی سےگلہڑ کے بجائے گلٹی یا بہت سی گلٹیاں بن جاتی ہیں جنہیں گومڑیاں کہتے ہیں یہ دراصل غدہ ورقیہ کے خلیوں کے جھنڈ ہیں جو کسی وجہ سے زیادہ نشوونما پاجاتے ہیں۔ 90 فیصد کیسوں میں انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے تاہم اگر ڈاکٹر انہیں مہلک قسم کی رسولی قرار دے تو پھر سرجری کے ذریعے کاٹ کر پھینک دیتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں